سورة الأنبياء - آیت 107

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرتے ہوئے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ: اعراب القرآن (قرآن کی ترکیب نحوی) کے موضوع پر لکھی ہوئی تقریباً تمام کتابوں میں ’’ رَحْمَةً ‘‘ کو ’’ اَرْسَلْنٰكَ ‘‘ کا مفعول لہ بیان کیا گیا ہے۔ بعض کتابوں میں دوسری تراکیب بھی بیان ہوئی ہیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ نحو کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ مفعول لہ جس فعل کی علت بیان کر رہا ہو اس فعل کا اور مفعول لہ کا فاعل ایک ہوتا ہے، مثلاً ’’ضَرَبْتُ زَيْدًا تَأْدِيْبًا‘‘ (میں نے زید کو ادب سکھانے کے لیے مارا) اس میں مارنے والا اور ادب سکھانے والا ایک ہی ہے، اس طرح یہاں بھیجنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے اور رحم کرنے والا بھی۔ چنانچہ معنی یہ ہو گا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرنے کے لیے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے کی وجہ اللہ تعالیٰ کا جہانوں پر رحم کرنا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے : ’’ونفرستادیم ترا مگر ازروئے مہربانی برعالمہا‘‘ (اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر مہربانی کی وجہ سے) اور شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے ترجمہ کیا ہے : ’’اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہر (یعنی مہربانی) کر کر جہان کے لوگوں پر۔‘‘ مفسر ابوالسعود نے فرمایا : ’’أَيْ مَا أَرْسَلْنَاكَ بِمَا ذُكِرَ لِعِلَّةٍ مِنَ الْعِلَلِ إِلاَّ لِرَحْمَتِنَا الْوَاسِعَةِ لِلْعَالَمِيْنَ قَاطِبَةً‘‘ ’’اور ہم نے تجھے مذکورہ وحی دے کر کسی بھی وجہ سے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں پر اپنی وسیع رحمت کی وجہ سے۔‘‘ امام المفسرین طبری نے فرمایا : ’’ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ يَا مُحَمَّدُ ! إِلاَّ رَحْمَةً لِمَنْ أَرْسَلْنَاكَ إِلَيْهِ مِنْ خَلْقِيْ‘‘ ’’اور ہم نے اے محمد! تجھے نہیں بھیجا مگر اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں پر رحم کے لیے جن کی طرف ہم نے تجھے بھیجا ہے۔‘‘ پھر امام طبری نے ’’ لِّلْعٰلَمِيْنَ ‘‘ کی تفسیر میں اس قول کو ترجیح دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے کی وجہ مومن و کافر سب پر رحم ہے کہ جو آپ پر ایمان لائے گا اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں رحمت لکھی جائے گی اور جو آپ پر ایمان نہیں لائے گا وہ دنیا میں ان عذابوں سے محفوظ رہے گا جو پہلی امتوں پر نبی کو جھٹلانے کی وجہ سے نازل ہوتے تھے، مثلاً زمین میں دھنس جانا، شکلیں بدل جانا وغیرہ۔ ایک ترکیب نحوی یہ ہے کہ ’’ رَحْمَةً ‘‘ حال بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔ جس طرح کہتے ہیں ’’زَيدٌ عَدْلٌ‘‘ کہ زید عدل ہے، یعنی اتنا عادل ہے گویا سراپا عدل ہے۔ پھر یہ ’’ اَرْسَلْنٰكَ ‘‘ میں ضمیر فاعل ’’ہم‘‘ سے بھی حال ہو سکتا ہے اور ’’ اَرْسَلْنٰكَ ‘‘ میں ضمیر ’’کاف‘‘ سے بھی۔ پہلی صورت میں معنی یہ ہو گا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس حال میں کہ ہم جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہیں۔ دوسری صورت میں معنی ہو گا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس حال میں کہ تو جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہے۔ پہلا معنی مفعول لہ والے معنی کے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہانوں پر رحم کی وجہ سے مبعوث کرنا اور اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں بھیجنا کہ اس کی ذات پاک تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہے، دونوں کا مفہوم ایک ہے جو سورۂ فاتحہ میں ’’رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ اور ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ کے اکٹھے بیان سے واضح ہے۔ دوسرا معنی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں بھیجا کہ آپ جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہیں، بھی درست ہے کہ آپ مومنوں کے لیے تو دنیا و آخرت دونوں میں سراسر رحمت ہیں، فرمایا: ﴿ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [التوبۃ : ۱۲۸ ] ’’مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ﴾ [التوبۃ : ۶۱ ] ’’اور ان کے لیے ایک رحمت ہے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں۔‘‘ اور کفار کے لیے بھی دنیا میں سراسر رحمت ہیں کہ آپ کی وجہ سے وہ دنیا میں پہلی قوموں جیسے عذابوں سے محفوظ ہو گئے اور آپ کی شریعت میں صلح و جنگ دونوں حالتوں میں ان پر وہ ظلم و جور روا نہیں رکھا جاتا جو دوسری تمام اقوام اپنے مخالفین پر روا رکھتی ہیں اور آپ کو کفار کے ایمان نہ لانے اور ان کے جہنم کا ایندھن بننے کا اتنا غم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ﴾ [الشعراء : ۳ ] ’’شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں پر رحم فرماتے اور اس کا حکم دیتے اور ان پر ظلم سے منع فرماتے تھے، فرمایا: ((فِيْ كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ)) [بخاري، المظالم، باب الآبار علی الطرق إذا لم یُتأذّبہا : ۲۴۶۶ ] ’’ہر تر جگر (زندگی) والی چیز (پر رحم) میں اجر ہے۔‘‘ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر ایک بدکار عورت کو مغفرت کی نوید سنائی۔ شریعت اسلامیہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ رحمت بھی رب العالمین ہی کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے محبوب رسول میں یہ وصف رکھا۔ چنانچہ ابن جزی ’’التسہیل‘‘ میں اعراب کی یہ تینوں وجہیں لکھ کر فرماتے ہیں : ’’وَالْمَعْنٰي عَلٰي كُلِّ وَجْهٍ أَنَّ اللّٰهَ رَحِمَ الْعَالَمِيْنَ بِإِرْسَالِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ‘‘ ’’ان تمام صورتوں میں معنی ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے کے ساتھ جہانوں پر رحم فرمایا۔‘‘