سورة البقرة - آیت 18

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ نہیں لوٹتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ”صُمٌّۢ“ ( بہرے) ”اَصَّمُ“ کی جمع ہے۔ ”بُكْمٌ“ (گونگے) ”اَبْكَمُ“ کی جمع ہے اور ”عُمْيٌ“ ( اندھے) ’’اَعْمَي‘‘ کی جمع ہے۔ ان کے بہرے، گونگے اور اندھے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے کان، زبانیں یا آنکھیں ہیں ہی نہیں ، بلکہ مراد یہ ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ رکھنے کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّ اَبْصَارًا وَّ اَفْئِدَةً فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُهُمْ وَ لَاۤ اَفْئِدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْا يَجْحَدُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ﴾ [ الأحقاف : ۲۶ ] ’’اور ہم نے ان کے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تو نہ ان کے کان ان کے کسی کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔‘‘ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ: یعنی وہ اس گمراہی سے جو خرید بیٹھے اور اس ہدایت کی طرف جسے فروخت کر بیٹھے واپس نہیں لوٹتے۔ ان آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو زبان سے مومن اور دل میں پکے کافر تھے۔