وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا يَا وَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ
اور سچا وعدہ بالکل قریب آجائے گا تو اچانک یہ ہوگا کہ ان لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی جنھوں نے کفر کیا۔ ہائے ہماری بربادی! بے شک ہم اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔
1۔ وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ : ’’ اقْتَرَبَ ‘‘ ’’قَرِبَ‘‘ میں ہمزہ اور تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، یعنی بہت یا بالکل قریب ہو گیا۔ ’’سچے وعدے‘‘ سے مراد قیامت ہے۔ یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے بعد مسیح علیہ السلام مسلمانوں کو لے کر پہاڑ سے اتریں گے، پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو زمین کی بے شمار برکتیں عطا فرمائے گا۔ صحیح مسلم (۲۹۳۷) میں ہے کہ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک طیب ہوا ان کی بغلوں کے نیچے بھیجے گا، جو ہر مومن کی روح قبض کر لے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، جو شہوت رانی کے لیے گدھوں کی طرح ایک دوسرے پر چڑھیں گے، انھی پر قیامت قائم ہو گی۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں: ((لاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلٰی شِرَارِ الْخَلْقِ هُمْ شَرٌّ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ لاَ يَدْعُوْنَ اللّٰهَ بِشَيْءٍ إِلَّا رَدَّهُ عَلَيْهِمْ)) [مسلم، الإمارۃ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا تزال طائفۃ من أمتی....: ۱۹۲۴ ] ’’قیامت ان لوگوں پر قائم ہو گی جو اللہ کی مخلوق میں سے بدترین لوگ ہوں گے، وہ جاہلیت والوں سے بھی بدتر ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے جو بھی مانگیں گے اللہ تعالیٰ انھیں وہ چیز دے دے گا۔‘‘ 2۔ فَاِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ’’شُخُوْصٌ‘‘ کا معنی حیرت یا خوف سے کھلا رہ جانا ہے، یعنی قیامت کا منظر دیکھ کر اس وقت تمام موجود لوگوں کی، جو بدترین کافر ہوں گے، آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ اس کی ہم معنی آیت: ﴿ وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ (32) مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌ﴾ [ إبراھیم : ۴۲، ۴۳ ] ’’اور تو اللہ کو ہرگز اس سے غافل گمان نہ کر جو ظالم لوگ کر رہے ہیں، وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ اس حال میں کہ تیز دوڑنے والے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے ہوں گے، ان کی نگاہ ان کی طرف نہیں لوٹے گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔‘‘ 3۔ يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِيْنَ : اس وقت وہ اپنی بربادی اور ہلاکت کو آواز دیں گے اور پہلے غفلت کا عذر کریں گے، پھر خود ہی صاف اعتراف کریں گے کہ انبیاء نے ہمیں اس دن سے خبردار کیا تھا، اس لیے ہم غافل نہیں بلکہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ دیکھیے سورۂ ملک (۵ تا ۱۱)۔