سورة الأنبياء - آیت 93

وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ ۖ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ اپنے معاملے میں آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ سب ہماری ہی طرف لوٹنے والے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ تَقَطَّعُوْا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ:’’ تَقَطَّعُوْا ‘‘ باب تفعل سے ہے جو لازم ہے۔ اصل میں ’’ تَقَطَّعُوْا فِي أَمْرِهِمْ‘‘ تھا، یعنی وہ اپنے دین کے معاملے میں آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ ’’فِيْ‘‘ کو حذف کرنے کی وجہ سے ’’ اَمْرَهُمْ ‘‘ پر نصب آ گیا۔ بعض نے فرمایا کہ یہاں’’ تَقَطَّعُوْا‘‘باب تفعیل(قَطَّعُوْا) کے معنی میں ہے جو متعدی ہے، یعنی انھوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اس معنی کی بھی گنجائش ہے، مگر پہلا معنی راجح ہے۔ یعنی سب کا دین ایک اور رب ایک ہے، اس لیے لازم تھا کہ سب ایک جماعت رہتے اور اپنے نبی کی کتاب اور سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے، مگر وہ سب کچھ جانتے ہوئے محض باہمی ضد اور عناد کی وجہ سے دین کے بارے میں کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۳) اور سورۂ شوریٰ (۱۳، ۱۴) ہماری امت کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ کتاب و سنت پر متحد ہونے کے بجائے فقہ و تصوف کے الگ الگ پیشوا بنا کر بہت سے فرقوں میں بٹ گئے، جن میں سے ہر فرقہ اپنے آپ ہی کو حق پر قرار دیتا ہے۔ سیاسی طور پر خلافت اسلامیہ کو ختم کر کے چھپن (۵۶) خود مختار ملکوں میں تقسیم ہو گئے، جن میں سے ایک بھی حقیقت میں خود مختار نہیں ہے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ 2۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو مخاطب کرکے فرمایا تھا: ﴿ اِنَّ هٰذِهٖ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ ﴾ یعنی یہ تمھاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، سو میری ہی عبادت کرو۔ اب اس آیت میں انھیں مخاطب کرنے کے بجائے ان کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کیا اور ’’ تَقَطَّعْتُمْ أَمْرَكُمْ بَيْنَكُمْ ‘‘ (تم اپنے دین کے معاملے میں آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے) کے بجائے فرمایا : ’’ وَ تَقَطَّعُوْا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ ‘‘ کہ وہ اپنے معاملے میں آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ یہ مخاطب سے غائب کی طرف التفات ہے، گویا اللہ تعالیٰ نے انھیں مخاطب کرنے کے بعد ان کی گروہ بندی کی وجہ سے انھیں اس قابل نہیں سمجھا کہ ان سے خطاب کیا جائے، اس لیے ان کا ذکر غائب کے صیغے سے فرمایا۔ كُلٌّ اِلَيْنَا رٰجِعُوْنَ : یعنی یہ لوگ جتنے گروہ چاہیں بنا لیں، آخر سب نے ہمارے پاس آنا ہے، پھر ہم سب کا فیصلہ کریں گے، فرمایا: ﴿ قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْ مَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ﴾ [الزمر : ۴۶ ] ’’تو کہہ اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! ہر چھپی اور کھلی کو جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔‘‘