سورة الأنبياء - آیت 85

وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو۔ ہر ایک صبر کرنے والوں سے تھا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِدْرِيْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ : یعنی ان تینوں کو یاد کرو۔ ایوب علیہ السلام کے صبر اور ان کے حسن انجام کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے تین پیغمبروں کا ذکر فرمایا جو خاص طور پر صبر کی صفت سے آراستہ تھے۔ اسماعیل علیہ السلام نے ذبح کے متعلق اپنے والد ماجد کے پوچھنے پر کہا: ﴿ سَتَجِدُنِيْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ﴾ [ الصافات : ۱۰۲ ] ’’اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھے ضرور صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔‘‘ اور اس نے واقعی صبر کرکے دکھایا۔ اسی طرح وادی غیر ذی زرع میں مستقل رہائش پر اور شکار اور زمزم کے ساتھ زندگی گزارنے پر صبر کیا، پھر بیت اللہ کی تعمیر میں ہر طرح کی مشقت برداشت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد میں سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا۔ اسماعیل اور ادریس علیھما السلام کا ذکر سورۂ مریم (۵۴ تا ۵۷) میں گزر چکا ہے۔ ذوالکفل کے متعلق قرآن و حدیث میں تفصیل نہیں آئی۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ انبیاء کے ساتھ ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے۔ (واللہ اعلم) اس کے علاوہ تفاسیر میں ان کے متعلق بیان کردہ تمام باتیں اسرائیلیات پر مبنی اور بے اصل ہیں۔ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کا لفظی معنی باندھنا ہے، یہ تین طرح کا ہوتا ہے : (1) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر، یعنی اپنے آپ کو اس کی فرماں برداری کا پابند رکھنا۔ (2) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے صبر، یعنی اپنے آپ کو اس سے روک کر رکھنا۔ (3) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقدیر میں لکھے ہوئے آلام و مصائب آنے پر اپنے آپ کو جزع فزع اور اللہ تعالیٰ یا مخلوق کے شکوہ و شکایت سے روک کر رکھنا۔ کوئی بھی شخص صابر نہیں کہلا سکتا جب تک وہ صبر کی ان تینوں قسموں سے پوری طرح آراستہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام پیغمبروں کے متعلق شہادت دی کہ انھوں نے صبر کا پورا حق ادا کیا۔