سورة الأنبياء - آیت 78

وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور داؤد اور سلیمان کو، جب وہ کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے، جب اس میں لوگوں کی بکریاں رات چر گئیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت حاضر تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ دَاؤدَ وَ سُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ....: ’’ نَفَشَتْ ‘‘ کا معنی ہے جانوروں کا رات کو کھیت میں پھیل جانا اور اس کی کھیتی اور پودوں کو کھا جانا۔ ’’ غَنَم‘‘ کا لفظ بھیڑ بکری دونوں پر آتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان علیھما السلام کو عطا کردہ نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلے وہ نعمت ذکر فرمائی جو دونوں کو عطا ہوئی تھی اور جو بعد میں آنے والی تمام نعمتوں سے افضل ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَ كُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا ﴾ ’’ حُكْمًا ‘‘ سے مراد قوت فیصلہ ہے اور ’’ عِلْمًا ‘‘ سے مراد علم شریعت ہے۔ 2۔ ان آیات کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں آئی، البتہ ابن جریر نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اس آیت کے متعلق فرمایا: ((كَرْمٌ قَدْ أَنْبَتَتْ عَنَاقِيْدُهُ فَأَفْسَدَتْهُ الْغَنَمُ قَالَ فَقَضَی دَاؤدُ بِالْغَنَمِ لِصَاحِبِ الْكَرْمِ، فَقَالَ سُلَيْمَانُ غَيْرُ هٰذَا يَا نَبِيَّ اللّٰهِ ! قَالَ وَمَا ذٰلِكَ؟ قَالَ تَدْفَعُ الْكَرْمَ اِلٰي صَاحِبِ الْغَنَمِ فَيَقُوْمُ عَلَيْهِ حَتّٰی يَعُوْدَ كَمَا كَانَ وَتَدْفَعُ الْغَنَمَ اِلٰي صَاحِبِ الْكَرْمِ فَيُصِيْبَ مِنْهَا حَتّٰی إِذَا عَادَ الْكَرْمَ كَمَا كَانَ دَفَعْتَ الْكَرْمَ اِلٰی صَاحِبِهِ وَدَفَعْتَ الْغَنَمَ اِلٰی صَاحِبِهَا قَالَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ: ﴿ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ وَ كُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا ﴾)) [مستدرک :2؍ 588، ح : ۴۱۳۸ ] ’’یہ انگور کی بیلیں تھیں جن کے گچھے نکل چکے تھے، جنھیں بھیڑ بکریوں نے اجاڑ دیا تھا۔ فرماتے ہیں کہ داؤد علیہ السلام نے فیصلہ فرمایا کہ بھیڑ بکریاں انگور کی بیلوں کے مالک کو دے دی جائیں، تو سلیمان علیہ السلام نے کہا : ’’اے اللہ کے نبی! اس کا فیصلہ اور ہے۔‘‘ انھوں نے پوچھا : ’’وہ کیا ہے؟‘‘ عرض کی: ’’آپ انگور کی بیلیں بھیڑ بکریوں والے کے حوالے کر دیں، وہ ان کی نگہداشت کرے جب تک وہ دوبارہ پہلے جیسی نہ ہو جائیں اور بھیڑ بکریاں انگور کی بیلوں والے کے حوالے کر دیں، وہ اس وقت تک ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور جب انگوروں کی بیلیں پہلی حالت پر لوٹ آئیں تو آپ انگوروں کی بیلیں اس کے مالک کے سپرد اور بھیڑ بکریاں اس کے مالک کے سپرد کر دیں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تو ہم نے وہ (فیصلہ) سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا۔‘‘ ابن کثیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا : ’’حاکم نے اسے روایت کرکے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ (اس سند میں ابو اسحاق کی تدلیس موجود ہے)۔‘‘ دکتور حکمت بن بشیر لکھتے ہیں : ’’طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد کا یہی قول نقل فرمایا ہے اور قتادہ اور ابن زید کا یہی قول صحیح سند کے ساتھ مسند عبد الرزاق میں بھی مروی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم داؤد اور سلیمان کے فیصلے کے وقت حاضر تھے، یعنی ہمیں اس کی ایک ایک جزئی کا پورا علم ہے۔ اگرچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کی صراحت نہیں کی، تاہم واقعہ کی صورت وہی معلوم ہوتی ہے جو انھوں نے بیان کی ہے۔ اس لیے بھی کہ بائبل میں اس واقعہ کا ذکر نہیں اور نہ یہ یہودی لٹریچر میں معروف ہے اور پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسرائیلیات بیان کرنے میں معروف بھی نہیں ہیں۔ 3۔ داؤد اور سلیمان علیھما السلام دونوں میں سے ہر ایک کا فیصلہ ان کا اجتہاد تھا، کیونکہ اگر وہ وحی سے ہوتا تو داؤد علیہ السلام کے فیصلے کے بعد اور فیصلے کی گنجائش نہ ہوتی۔ انبیاء بھی اجتہاد فرماتے ہیں مگر ان کے اجتہاد اور دوسرے لوگوں کے اجتہاد میں یہ فرق ہے کہ انبیاء کے اجتہاد میں اگر کوئی خطا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیتا ہے، جیسا کہ یہاں سلیمان علیہ السلام کے فیصلے کے ساتھ اس کی اصلاح فرما دی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: ﴿ عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۴۳] ’’اللہ نے تجھے معاف کر دیا، تو نے انھیں کیوں اجازت دی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ﴾ [ التحریم : ۱ ] ’’اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟‘‘ اگر کسی بات پر اللہ تعالیٰ خاموشی اختیار فرمائے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی موافقت کی وجہ سے حق ہوتی ہے اور وحی کا حکم رکھتی ہے، یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿ وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (3) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ﴾ [ النجم : ۳، ۴ ] کا۔ انبیاء علیھم السلام کے سوا کسی مجتہد کی خطا کی بذریعہ وحی اصلاح نہیں ہوتی، اس لیے ان کے اجتہادات شریعت میں حجت نہیں ہیں۔ 4۔ مسئلہ : اگر کسی کے جانور دن کے وقت کسی دوسرے کے کھیت یا باغ کو چر جائیں تو جانور والے پر کوئی تاوان نہیں ہے اور اگر رات کے وقت چر جائیں تو جس قدر نقصان ہو اس قدر تاوان جانور والے کے ذمے ہو گا، جیسا کہ براء بن عازب رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ میری ایک اونٹنی تھی جو بہت نقصان کیا کرتی تھی، ایک دفعہ وہ ایک باغ میں داخل ہو گئی اور وہاں نقصان کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں بات کی گئی تو آپ نے فیصلہ فرمایا : ’’ دن کے وقت باغات کی نگرانی اور حفاظت ان کے مالکوں کے ذمے ہے اور رات کے وقت جانوروں کی نگرانی ان کے مالکوں کے ذمے ہے اور رات کے وقت جانور جو نقصان کر جائیں تو وہ ان کے مالکوں کے ذمے ہے (کہ اسے پورا کریں)۔‘‘ [ أبو داؤد، الإجارۃ، باب المواشی تفسد زرع قوم : ۳۵۷۰۔ ابن ماجہ : ۲۳۳۲۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :۱؍237، ح:۲۳۸ ] بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جانور والے پر کسی صورت تاوان نہیں ہے اور دلیل میں ’’اَلْعَجْمَاءُ جُرْحُهَا جُبَارٌ‘‘ (جانور کا کسی کو زخمی کر دینا رائگاں ہے) پیش کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں صرف زخم کے معاف ہونے کا ذکر ہے، کھیت کے نقصان کے معاف ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا براء بن عازب رضی اللہ عنھما والی حدیث میں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ براء رضی اللہ عنھما کی حدیث کو منسوخ کہا جائے۔ (قرطبی) 5۔ اس آیت سے اس حدیث کی تائید ہوتی ہے جو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهٗ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهٗ أَجْرٌ)) [بخاري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب أجر الحاکم إذا اجتھد....: ۷۳۵۲ ] ’’جب حاکم فیصلہ کرے اور پوری کوشش کرے، پھر درست فیصلہ کرے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ فیصلہ کرے اور پوری کوشش کرے، پھر خطا کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے اگرچہ ’’ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ‘‘ (ہم نے وہ فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا) کہہ کر سلیمان علیہ السلام کے فیصلے کی تائید فرمائی، مگر داؤد اور سلیمان دونوں کے متعلق فرمایا : ﴿وَ كُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا﴾ کہ ہم نے ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا۔ 6۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمان علیہ السلام کے کمال فہم و ذکاوت کا ایک اور واقعہ روایت کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((كَانَتِ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا جَاءَ الذِّئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا فَقَالَتْ صَاحِبَتُهَا إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، وَقَالَتِ الْأُخْرَی إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، فَتَحاكَمَتَا إِلٰی دَاؤدَ فَقَضَی بِهِ لِلْكُبْرٰی، فَخَرَجَتَا عَلٰی سُلَيْمَانَ بْنِ دَاؤدَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ فَأَخْبَرَتَاهٗ فَقَالَ ائْتُوْنِيْ بِالسِّكِّيْنِ أَشُقُّهُ بَيْنَهُمَا، فَقَالَتِ الصُّغْرٰی لاَ تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللّٰهُ، هُوَ ابْنُهَا ، فَقَضَی بِهِ لِلْصُّغْرٰی)) [بخاري، الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی: ﴿ ووھبنا لداؤد سلیمان ....﴾ : ۳۴۲۷۔ مسلم : ۱۷۲۰۔ نسائی : ۵۴۰۵ ] ’’دو عورتیں تھیں جن کے پاس ان کے بیٹے تھے۔ بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بیٹے کو لے گیا۔ وہ اپنی ساتھی عورت سے کہنے لگی کہ وہ تو تمھارا بیٹا لے گیا ہے۔ دوسری کہنے لگی، وہ تمھارا بیٹا ہی لے گیا ہے۔ چنانچہ وہ دونوں فیصلے کے لیے داؤد علیہ السلام کے پاس گئیں۔ انھوں نے اس کا فیصلہ بڑی کے حق میں کر دیا۔ دونوں جاتے ہوئے سلیمان بن داؤد علیھما السلام کے پاس سے گزریں تو انھیں یہ بات بتائی، انھوں نے فرمایا : ’’میرے پاس چاقو لاؤ، میں اسے دونوں کے درمیان چیر دوں۔‘‘ تو چھوٹی نے کہا : ’’ایسا نہ کریں، اللہ آپ پر رحم کرے، یہ اسی کا بیٹا ہے۔‘‘ چنانچہ انھوں نے اس کا فیصلہ چھوٹی کے حق میں کر دیا۔‘‘ امام نسائی نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ حاکم کے لیے گنجائش ہے کہ جو کام اس نے نہیں کرنا، اس کے متعلق کہے کہ میں ایسا کرتا ہوں، تا کہ حق واضح ہو جائے۔ 7۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات بیٹا باپ سے زیادہ بات سمجھ لیتا ہے، اس میں کفار عرب کے لیے بھی سبق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے باوجود آبا و اجداد کی رسوم چھوڑنے پر تیار نہ تھے اور ان مقلدین کے لیے بھی جنھوں نے چار اماموں کے بعد اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند کر دیا ہے۔ بتائیے اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فیض عام کی توہین اور کیا ہو گی؟ وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاؤدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَ الطَّيْرَ : اس سے پہلے ابراہیم اور نوح علیھما السلام کی خاطر آگ اور پانی کو مسخر کرنے کا ذکر فرمایا تھا۔ اب داؤد اور سلیمان علیھما السلام دونوں پر مشترکہ نعمت حکم و علم کا ذکر کرنے کے بعد دونوں کو عطا کر دہ نعمتیں الگ الگ ذکر فرمائیں۔ چنانچہ داؤد علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر اور پابند کر دیا اور انھیں اتنی خوبصورت آواز عطا فرمائی کہ جب وہ اللہ کی کتاب زبور پڑھتے یا تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے۔ سورۂ سبا میں فرمایا: ﴿يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَ الطَّيْرَ ﴾ [ سبا : ۱۰ ] ’’اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کو دہراؤ اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا)۔‘‘ سورۂ صٓ میں فرمایا: ﴿ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِشْرَاقِ (18) وَ الطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً كُلٌّ لَّهٗ اَوَّابٌ ﴾ [ صٓ : ۱۸، ۱۹ ] ’’بے شک ہم نے پہاڑوں کو اس کے ہمراہ مسخر کر دیا، وہ دن کے پچھلے پہر اور سورج چڑھنے کے وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندوں کو بھی، جب کہ وہ اکٹھے کیے ہوتے، سب اس کے لیے رجوع کرنے والے تھے۔‘‘ سبحان اللہ! وہ کیسا حسین منظر ہو گا جب اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی مصروف تسبیح ہوتے ہوں گے۔ بعض لوگوں نے پہاڑوں کی تسبیح کا مطلب داؤد علیہ السلام کی بلند اور سریلی آواز سے ان کا گونج اٹھنا اور پرندوں کی تسبیح سے مراد ان کا ٹھہر جانا قرار دیا ہے، مگر درحقیقت یہ پہاڑوں اور پرندوں کی ان کے ہمراہ تسبیح کو ناممکن سمجھ کر اس کا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز داؤد علیہ السلام پر خاص نعمت کے طورپر ذکر فرمائی ہے، پہاڑوں کی گونج تو ہر بلند آواز سے پیدا ہوتی ہے، اچھی ہو یا بری، اس میں داؤد علیہ السلام کی خصوصیت کیا ہوئی؟ اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ پہاڑ اور پرندے فی الواقع ان کے ہمراہ تسبیح کرتے تھے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۴۴)۔ وَ كُنَّا فٰعِلِيْنَ : یعنی تعجب مت کرو کہ وہ پہاڑ اور پرندے کیسے بولتے اور تسبیح کرتے تھے، یہ سب کچھ ہمارے کرنے سے ہوتا تھا۔ (کبیر)