سورة الأنبياء - آیت 39

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کاش! وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اس وقت کو جان لیں جب وہ نہ اپنے چہروں سے آگ کو روک سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا....: یعنی ان لوگوں کے عذاب کو جھٹلانے اور اسے ناممکن سمجھنے کی اصل وجہ ان کا جہل ہے، انھیں اس وقت کا علم ہی نہیں جب آگ انھیں چاروں طرف سے گھیر لے گی۔ یہ نہ اپنے چہروں سے آگ کو روک سکیں گے، جو ان کے جسم کا سب سے اہم اور خوبصورت حصہ ہے اور نہ پشتوں سے، جو جسم کا سب سے مضبوط حصہ ہے۔ جب ان اعضا کو آگ سے نہ بچا سکے تو دوسرے اعضا کو کیسے بچائیں گے؟ کفار کو آگ کے چاروں طرف سے گھیرنے کا ذکر کئی جگہ آیا ہے۔ دیکھیے سورۂ کہف (۲۹)، اعراف (۴۱)، زمر (۱۶)، ابراہیم (۵۰)، مومنون (۱۰۴) اور دوسری آیات۔ ’’ لَوْ ‘‘ کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ یہ حرف شرط ہے اور اس کی جزا محذوف ہے، جو خودبخود سمجھ میں آ رہی ہے، یعنی اگر کافر لوگ اس وقت کو جان لیں تو نہ کبھی اسے جلدی طلب کریں، نہ اس کا مذاق اڑائیں اور نہ اس کا انکار کریں۔ دوسری تفسیر یہ کہ یہ حرف تمنی ہے، یعنی ’’کاش کہ کافر لوگ اس وقت کو جان لیں‘‘ اس صورت میں جزا کی ضرورت نہیں۔ وَ لَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ : کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا اور نہ وہ اپنی یا ایک دوسرے کی مدد کر سکیں گے۔ دیکھیے سورۂ طارق (۱۰)، صافات (۲۵، ۲۶) اور شعراء (۹۲ تا ۹۵)۔