سورة الأنبياء - آیت 35

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ہر جان موت کو چکھنے والی ہے اور ہم تمھیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ: ’’ ذَآىِٕقَةُ ‘‘ ’’ ذَاقَ يَذُوْقُ ‘‘ (ن) سے اسم فاعل ہے، یعنی چکھنے والی۔ اس میں تمام بت پرستوں کی تردید ہے جو اپنے دیوی دیوتاؤں کے ہمیشہ زندہ رہنے کا عقیدہ رکھتے ہیں، اسی طرح ان قبر پرستوں کا بھی جو اپنے داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے لیے موت کا لفظ گالی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بزرگ کے بارے میں موت یا فوت کا لفظ آئے وہ اس کے بجائے انتقال (جگہ بدلنے) کا لفظ استعمال کریں گے، یا کہیں گے وہ پردے میں ہو گئے ہیں یا پردہ فرما گئے ہیں۔ اللہ کے بندے یہ نہیں سوچتے کہ موت تو مومن کا تحفہ ہے، جس کے بغیر اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اس کا دیدار ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہاں دو شعر نقل فرمائے ہیں جو امام شافعی رحمہ اللہ نے ایسے ہی کسی موقع پر پڑھے: تَمَنَّي رِجَالٌ أَنْ أَمُوْتَ وَ إِنْ أَمُتْ فَتِلْكَ سَبِيْلٌ لَسْتُ فِيْهَا بِأَوْحَدٖ فَقُلْ لِلَّذِيْ يَبْغِيْ خِلاَفَ الَّذِيْ مَضٰي تَهَيَّأْ لِأُخْرٰي مِثْلِهَا فَكَأَنْ قَدٖ ’’کچھ لوگوں نے میری موت کی تمنا کی ہے اور اگر میں مر جاؤں تو یہ ایسا راستہ ہے جس میں میں اکیلا نہیں ہوں۔ سو اس شخص سے کہہ دو جو جانے والے کے بعد اس کی جگہ کا طلب گار ہے کہ تو بھی اس جیسی ایک اور (موت) کے لیے تیار ہو جا اور سمجھ لے کہ وہ بس آ ہی چکی۔‘‘ ایک فارسی شاعر نے خوب کہا ہے: بے فنائے خود میسر نیست دیدارِ شما مے فروشد خویش را اول خریدارِ شما ’’اپنے فنا ہونے کے بغیر تمھارا دیدار میسر نہیں ہو سکتا، اس لیے تمھارا خریدار پہلے اپنے آپ کو فروخت کرتا ہے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ زمر (۳۰)، آل عمران (۱۸۵)، عنکبوت (۵۶، ۵۷) اور نساء (۷۸)۔ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ فِتْنَةً:’’نَبْلُوْكُمْ ‘‘ ’’بَلَا يَبْلُوْ‘‘ اور ’’اِبْتَلٰي يَبْتَلِيْ‘‘ کا معنی ایک ہی ہے، آزمانا، مبتلا کرنا۔ ’’ فِتْنَةً ‘‘ آزمائش۔ ’’ فِتْنَةً ‘‘ لفظ کی تبدیلی کے ساتھ ’’ نَبْلُوْكُمْ ‘‘ کا مفعول مطلق ہے، مفعول لہ بھی ہو سکتا ہے۔ ترجمہ مفعول لہ کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ شر سے مراد دنیا میں بدحالی اور سختی ہے اور خیر سے مراد خوشحالی اور آسانی ہے۔ یعنی ہم تمھیں کبھی سختی سے دوچار کرتے ہیں، کبھی نرمی کا سلوک کرتے ہیں۔ کبھی تم پر بیماری آتی ہے، کبھی صحت۔ کبھی دولت وافر ہوتی ہے کبھی فقیری، غرض ان تمام حالتوں سے مقصود تمھاری آزمائش ہے کہ تم نعمت پر شکر اور مصیبت پر صبر کرتے ہو یا نہیں۔ کافر اور فاسق خوشحالی میں بخل اور تکبر کرنے لگتا ہے اور مصیبت میں بے صبری اور جزع فزع۔ دیکھیے سورۂ معارج (۱۹ تا ۲۱) مومن کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهٗ كُلَّهٗ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهٗ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهٗ وَإِنْ أَصَابَتْهٗ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهٗ)) [مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹، عن صہیب رضی اللّٰہ عنہ ]’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے، سو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، وہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق کو آزمانے کا ذکر کئی آیات میں آیا ہے، دیکھیے سورۂ اعراف (۹۴، ۹۵، ۱۶۸) اور سورۂ انعام (۴۲ تا ۴۵)۔ وَ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ : ’’اِلَيْنَا ‘‘ پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا ہے، یعنی تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہم تمھیں تمھارے اعمال کے مطابق اچھی یا بری جزا دیں گے۔ ’’لوٹائے جاؤ گے‘‘ اس لیے فرمایا کہ ہمارے والد ماجد آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد جنت میں رکھا گیا، پھر ان کی خطا سے انھیں جنت سے نکالا گیا۔ معلوم ہوا ہمارا اصل وطن جنت ہے، آزمائش کے لیے کچھ مدت زمین پر گزارنے کے بعد ہمیں دوبارہ اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہو گا، اگر کامیاب ہوئے تو دوبارہ جنت ملے گی اور ناکام ہوئے تو جہنم۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۳۸، ۳۹)۔