سورة الأنبياء - آیت 33

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند پیدا کیے، سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ: پچھلی آیت میں مشرکوں کے زمین و آسمان کی نشانیوں سے منہ موڑنے کا ذکر فرمایا، اس آیت میں ان میں سے چند نشانیاں ذکر فرمائی ہیں، یعنی رات، دن، سورج اور چاند۔ بڑی نشانیوں کے ذکر کے بعد چھوٹی نشانیوں، مثلاً ستاروں وغیرہ کے ذکر کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۲)، قصص (۷۱، ۷۲)، یونس (۵، ۶)، فرقان (۶۱، ۶۲)، انعام (۹۶) اور یس (۳۷ تا ۴۰)۔ كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ : ’’ فَلَكٍ ‘‘ دراصل چرخے کے دھاگا بنانے والے تکلے پر گھومنے والے گول چمڑے کو کہتے ہیں، پھر ہر دائرے کو فلک کہہ لیتے ہیں۔ ’’سَبَحَ يَسْبَحُ‘‘ (ف) کا معنی تیرنا ہے۔ نہایت تیزی سے چلنے کو بھی تیرنے سے تشبیہ دیتے ہیں، جیسا کہ متنبی نے کہا ہے : أَعَزُّ مَكَانٍ فِي الدُّنْيَا سَرْجُ سَابِحٍ وَ خَيْرُ جَلِيْسٍ فِي الزَّمَانِ كِتَابُ ’’دنیا میں سب سے زیادہ باعزت جگہ تیرنے والے گھوڑے کی زین ہے اور زمانے میں سب سے بہتر ہم نشین کتاب ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ سورج، چاند اور تمام سیارے اپنے اپنے دائرے میں نہایت تیزی سے گھوم رہے ہیں۔ کوئی اپنے مقرر کردہ مدار سے نہ ادھر ادھر ہوتا ہے اور نہ خراب ہو کر رکتا ہے۔ نہ کسی میں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے اور نہ تصادم، فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ﴾ [ یٰسٓ : ۳۸ ] ’’یہ اس کا مقرر کردہ اندازہ ہے جو سب پر غالب، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘