سورة الأنبياء - آیت 31

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے کہ وہ انھیں ہلانہ دے اور ہم نے ان میں کشادہ راستے بنا دیے، تاکہ وہ راہ پائیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ جَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ : ’’رَوَاسِيَ‘‘ ’’رَاسِيَةٌ‘‘ کی جمع ہے جو ’’رَسَا يَرْسُوْ رُسُوًّا‘‘سے اسم فاعل ہے، یعنی زمین میں گڑے ہوئے۔ ارضیات کے ماہروں پر اب یہ حقیقت ظاہر ہوئی ہے کہ پہاڑوں کا بہت بڑا حصہ زمین کے نیچے گڑا ہوا ہے۔ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ : ’’مَادَ يَمِيْدُ مَيْدًا وَ مَيْدَانًا‘‘ حرکت کرنا، ٹیڑھا ہونا۔ (قاموس) ’’ اَنْ تَمِيْدَ ‘‘ اصل میں ’’أَنْ لَا تَمِيْدَ‘‘ ہے۔ یہ تیسری دلیل ہے، یعنی اگر زمین میں یہ بھاری پہاڑ نہ گاڑ دیے جاتے تو اس میں ہر وقت زلزلے اور حرکت کی حالت رہتی، اس میں نہ وہ توازن ہوتا اور نہ سکون جو مخلوق کے رہنے کے لیے ضروری ہے۔ وہ کسی وقت بھی ایک طرف جھک جاتی، یا زلزلے سے دو چار رہتی جس سے زمین کے ستر فیصد حصے پر پھیلا ہوا سمندر کا پانی خشکی پر چڑھ دوڑتا اور زمین پر ایک متنفس بھی باقی نہ رہتا۔ اب بھی کبھی کبھار اللہ تعالیٰ زلزلے کے ذریعے سے اپنی نعمت یاد دلاتا رہتا ہے، جس سے سمندر کا پانی خشکی پر چڑھ دوڑتا ہے اور میلوں تک آبادیوں کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ وَ جَعَلْنَا فِيْهَا فِجَاجًا سُبُلًا: ’’ فِجَاجًا‘‘ ’’فَجٌّ‘‘ کی جمع ہے، یعنی پہاڑوں کے درمیان کھلا راستہ۔ زمخشری نے ’’ فِجَاجًا ‘‘ کو ’’سُبُلًا ‘‘سے حال قرار دیا ہے، کیونکہ یہ نکرہ ’’سُبُلًا‘‘ کی صفت ہے جو پہلے آئی ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ لِتَسْلُكُوْا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا ﴾ [نوح : ۲۰ ] ’’تاکہ تم اس کے کھلے راستوں پر چلو۔‘‘ یعنی اگر یہ بلند اور ٹھوس پہاڑ اس طرح واقع ہوتے کہ ان میں کوئی راستہ نہ ہوتا، یا ان میں ڈھلوان نہ ہوتی بلکہ عموداً کھڑے ہوتے تو نہ زمین کی ایک طرف کے لوگ دوسری طرف جا سکتے، نہ ایک شہر کے لوگ دوسرے شہر کے لوگوں سے مل سکتے اور نہ خود پہاڑوں پر آبادی ہو سکتی۔ یہ ہماری قدرت کا کمال ہے کہ ہم نے پہاڑوں میں ندی نالوں، دروں اور ڈھلوانوں کی صورت میں آنے جانے کے کشادہ راستے بنا دیے ہیں، جس سے پہاڑ بھی میدانوں کی طرح آباد ہیں۔ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ: تاکہ وہ زمین میں جہاں جانا چاہیں اس کے لیے راہ پا سکیں اور تاکہ وہ زمین و آسمان اور پہاڑوں کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے دیکھ کر اس کی توحید کی راہ پا سکیں۔ ’’ يَهْتَدُوْنَ ‘‘ میں دونوں مفہوم شامل ہیں۔