سورة الأنبياء - آیت 25

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ....: پچھلی آیت میں ’’ هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ ‘‘ کہہ کر جو بات اختصار کے ساتھ کہی گئی تھی اب وہ واضح الفاظ میں تاکید کے ساتھ دہرائی گئی ہے اور جس بات کا حوالہ صرف چند کتابوں کے ساتھ خاص تھا اب تمام رسولوں کے ذکر کے ساتھ اسے عام کرکے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ آپ سے پہلے جو بھی رسول ہم نے بھیجا، خواہ اسے کتاب دی یا نہ دی، اسے یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، سو میری عبادت کرو۔ مزید دیکھیے سورۂ نحل (۳۶) معلوم ہوا تمام رسول توحید الوہیت کی دعوت دینے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے کہ عبادت صرف اللہ کی کرو اور اسی سے دعا اور فریاد کرو، کیونکہ توحید ربوبیت کے تو اکثر کفار بھی قائل تھے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک اور رازق مانتے تھے، مگر پکارتے وقت غیر اللہ کو بھی پکارتے اور انھیں نفع نقصان کا مالک سمجھتے تھے، یا یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اپنی بات اللہ تعالیٰ سے منوا سکتے ہیں اور ہماری حاجتیں پوری کروا سکتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ یونس (۱۸) اور سورۂ زمر (۳)۔ 2۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر پہلے اپنی صفات کے تعدد کی بنا پر جمع متکلم کے ساتھ کیا ہے، مراد اپنی عظمت کا اظہار ہے، پھر جب توحید کا ذکر آیا تو اپنا ذکر واحد متکلم کے ساتھ فرمایا کہ ’’ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ‘‘ اس میں ’’ اَنَا ‘‘ (میں) بھی واحد ہے اور ’’فَاعْبُدُوْنِ ‘‘ (جو اصل میں ’’ فَاعْبُدُوْنِيْ ‘‘ تھا) کی یائے متکلم بھی واحد ہے، یہاں جمع کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا، تاکہ شبہ بھی پیدا نہ ہو کہ معبود ایک سے زیادہ ہیں۔