بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ
بلکہ انھوں نے کہا یہ خوابوں کی پریشان باتیں ہیں، بلکہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے، پس یہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائے جیسے پہلے (رسول) بھیجے گئے تھے۔
1۔ بَلْ قَالُوْا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ....: ’’ اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف (۴۴)۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو جھٹلانے والے کفار کے مختلف اقوال ذکر کرکے ثابت کیا کہ یہ خوب جانتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے سخت بدحواس اور مذبذب ہیں کہ قرآن کو کیا کہہ کر جھٹلائیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ خوابوں کی پریشان باتیں ہیں، پھر کہتے ہیں کہ نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خود تصنیف کرکے اللہ کے ذمے لگا دیا ہے۔ پھر اس پر تسلی نہیں ہوتی تو کہتے ہیں کہ نہیں، اصل یہ ہے کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن آپ کے شاعرانہ تخیل کا نتیجہ ہے۔ سورۂ مدثر (۱۸ تا ۲۵) میں کفار کے ایک کھڑپینچ کی اسی طرح کی پریشان خیالی کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی تمام باتوں کا جواب دے رکھا تھا کہ اگر تمھیں اس قرآن کے اللہ کا کلام ہونے میں شک ہے تو اس جیسی کتاب بنا کر لے آؤ، یا دس سورتیں بنا کر لے آؤ، چلو! یہ بھی نہیں تو اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آؤ۔ اگر یہ بھی نہ کرو اور کر بھی نہیں سکو گے، تو جہنم کی آگ سے ڈر کر اس پر ایمان لے آؤ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ کفار کے پاس اس کا کوئی جواب نہ اس وقت تھا اور نہ قیامت تک اس کا جواب لا سکتے ہیں۔ مگر وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھے، اس لیے کہنے لگے کہ اس معجزے کو دیکھ کر ہم ایمان نہیں لائیں گے، ہمارے پاس تو یہ رسول وہ معجزے لے کر آئے جو پہلے رسولوں کو دیے گئے تھے، مثلاً صالح علیہ السلام کی اونٹنی، موسیٰ علیہ السلام کا عصا، عیسیٰ علیہ السلام کا مردہ کو زندہ کرنا، نابینا کو بینا کرنا وغیرہ۔