مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ
ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو مگر وہ اسے مشکل سے سنتے ہیں اور وہ کھیل رہے ہوتے ہیں۔
1۔ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ ...:’’ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ ‘‘ ’’سَمِعَ يَسْمَعُ‘‘ کا معنی سننا ہے، باب افتعال میں تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، جو موقع کی مناسبت سے خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے۔ عام طور پر ’’اِسْتَمَعَ‘‘ کا معنی کان لگا کر سننا آتا ہے، مگر ظاہر ہے کہ کفار کے لیے نصیحت کو کان لگا کر سننا مشکل ہے، خصوصاً جب وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہوں، اس لیے معنی کیا گیا ہے ’’مگر وہ اسے مشکل سے سنتے ہیں۔‘‘ 2۔ پچھلی آیت میں لوگوں کے غفلت میں گرفتار ہونے اور منہ موڑنے کا ذکر تھا۔ اس آیت میں بتایا کہ انھیں اس غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ان کے رب کی طرف سے قرآن و سنت کی صورت میں نئی سے نئی نصیحت آتی رہتی ہے، مگر قبول کرنا تو دور کی بات، وہ اسے توجہ اور اطمینان سے سنتے بھی نہیں، بلکہ کھیلتے اور مذاق اڑاتے ہوئے بڑی مشکل اور گرانی سے سنتے ہیں۔ 3۔ ’’ مِنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ ‘‘ (ان کے رب کی طرف سے نصیحت) سے معلوم ہو رہا ہے کہ رب تعالیٰ صرف کھانے پینے اور دنیوی ضرورتیں پوری کرنے والا رب اور پروردگار ہی نہیں بلکہ انسان کی روحانی ضرورتیں اور آخرت کی نجات کی ضامن چیزوں کو مہیا کرنے والا رب بھی ہے۔ 4۔ ’’ مُحْدَثٍ ‘‘ کا معنی ’’نیا‘‘ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے لوگوں کی طرف قرآن اور حدیث کی صورت میں نئی سے نئی نصیحت آتی رہتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جو چاہے کلام کر سکتا ہے۔ بعض لوگوں نے قرآن کو اللہ تعالیٰ کا کلام ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ اسے مخلوق قرار دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا ناممکن ہے۔ اس بحث کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۴۳)، توبہ (۶) اور کہف (۱۰۹)۔