وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ
اور اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف ہرگز نہ اٹھا جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیا کی زندگی کی زینت کے طور پر برتنے کے لیے دی ہیں، تاکہ ہم انھیں اس میں آزمائیں اور تیرے رب کا دیا ہوا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
1۔ وَ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖ....: ’’ مَدَّ يَمُدُّ ‘‘ (ن) پھیلانا، لمبا کرنا۔ آنکھیں پھیلانے سے مراد تعجب سے دیر تک دیکھتے رہنا ہے۔ ’’ مَدَّ يَمُدُّ‘‘ عام طور پر پاؤں یا ہاتھ پھیلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ’’ مَدَّ يَدَهُ ‘‘ یا ’’مَدَّ رِجْلَهُ‘‘ اس نے اپنا ہاتھ پھیلایا یا اپنا پاؤں پھیلایا۔ یہاں آنکھیں پھیلانا استعارہ ہے، یعنی جس طرح پسندیدہ چیز کی طرف شوق اور حرص سے ہاتھ پھیلایا جاتا ہے آپ اپنی آنکھیں مت پھیلائیں۔ معلوم ہوا دیکھنے پر پابندی نہیں، دیکھتے چلے جانے پر پابندی ہے، کیونکہ اس سے دل میں اس چیز کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتی۔ ’’ اَزْوَاجًا ‘‘ کی تنوین تقلیل کے لیے ہے، یعنی دنیا کی وہ زیب و زینت ہم نے ہر کافر کو نہیں دی، بلکہ ان کے چند قسم کے لوگوں ہی کو دی ہے، کیونکہ بہت سے کفار نہایت بدحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ’’ زَهْرَةٌ ‘‘ ’’زَهْرٌ‘‘ کی واحد ہے، پھول، جیسے ’’ تَمْرَةٌ ‘‘ ’’تَمْرٌ ‘‘ کی واحد ہے۔ استعارے کے طور پر زیب و زینت کو بھی ’’ زَهْرَةٌ ‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ پھول کی طرح زینت بھی نگاہ و دل کو لے جاتی ہے۔ ’’ زَهْرَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ‘‘ دنیا کی زندگی کی زینت۔ دنیا کی زینت کے جامع بیان کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۴) اور سورۂ توبہ (۲۴) بلکہ انسان کو ملنے والی ہر چیز ہی دنیا کی زندگی کی زینت ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتُهَا ﴾ [ القصص : ۶۰ ] ’’اور تمھیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے سو دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے۔‘‘ معلوم ہوا کفار کو ملنے والی کسی بھی چیز کی طرف نگاہ پھیلانا جائز نہیں، کیونکہ یہ سب کچھ ان کے فتنہ و آزمائش کے لیے ہے اور حقیقت میں ان کی زندگی دشوار کرنے کا باعث ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا ﴾ [ طٰہٰ : ۱۲۴ ] ’’تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ توبہ (۵۵)۔ 2۔ وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى: ’’تیرے رب کا رزق‘‘ سے مراد حلال رزق ہے، کیونکہ وہ رب کے حکم کے مطابق کمایا گیا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی شان کی بلندی کے لیے اس کی نسبت اپنی طرف کی، ورنہ کافروں کو ملنے والا رزق بھی اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کر دہ ہے۔ یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی حلال روزی اور آخرت میں اس کا عطا کردہ اجر و ثواب کفار کو ملنے والی نعمتوں سے کہیں بہتر اور پائیدار ہے، کیونکہ دنیا فانی اور آخرت باقی ہے۔