إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ
بے شک تیرے لیے یہ ہے کہ تو اس میں نہ بھوکا ہوگا اور نہ ننگا ہوگا۔
1۔ اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ....: گویا آدم اور حوا علیھما السلام کو بتا دیا گیا کہ تمھاری تمام بنیادی ضروریات کا یہاں انتظام کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہی چار چیزیں ہیں : بھوک دور کرنے کے لیے کھانا، پیاس بجھانے کے لیے پانی، ستر ڈھانپنے کے لیے لباس اور سردی گرمی سے بچنے کے لیے مکان۔ یہ دراصل شقاوت کی تفسیر ہے اور اس شقاوت سے مراد دنیوی شقاوت ہے نہ کہ اخروی۔ شقاوت کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۲)۔ 2۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے بھوک کے بعد پیاس کے بجائے ننگا ہونے کا ذکر کیا اور پیاس کے بعد دھوپ میں جلنے کا ذکر فرمایا۔ اس میں ایک تو آیات کے آخری الفاظ کی مناسبت مقصود ہے اور ایک یہ کہ اگر بھوک، پیاس اور ننگے ہونے اور دھوپ میں جلنے کو اکٹھا ذکر کیا جاتا تو پہلی دونوں اور دوسری دونوں کا مجموعہ ہم شکل ہونے کی وجہ سے ایک ایک نعمت نظر آتا، الگ الگ ذکر کرنے سے چار نعمتیں نمایاں ہو گئیں۔ (قاسمی)