سورة طه - آیت 114

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس بہت بلند ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے، اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر، اس سے پہلے کہ تیری طرف اس کی وحی پوری کی جائے اور کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ .....:’’ فَتَعٰلَى ‘‘ ’’عَلاَ يَعْلُوْ عُلُوًّا‘‘ بلند ہونا۔ باب تفاعل میں تاء اور الف کے اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہو گیا ’’پس بہت بلند ہے۔‘‘ ’’ الْمَلِكُ الْحَقُّ ‘‘ ’’حَقَّ يَحِقُّ‘‘ ثابت ہونا۔ لفظ حق باطل کے مقابلے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حقیقی، سچی اور پائدار ہے۔ دوسرے تمام بادشاہ دنیا میں نہایت محدود اختیارات کے مالک ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے، وہ نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں کر سکتے اور آخرت میں ان کے وہ اختیار بھی ختم ہو جائیں گے۔ پھر اس میں کیا شک ہے کہ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور باقی سب باطل ہیں ۔ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتانِ آزری صحیح بخاری (۱۱۲۰) میں تہجد کے لیے اٹھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لمبی دعا مذکور ہے، اس دعا میں ہے: ((وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاءُكَ حَقٌّ )) دعاؤں کی کسی کتاب یا اصل صحیح بخاری سے یہ مکمل دعا یاد کر لیں، یہ دعا تہجد کے وقت پڑھنا مسنون اور بے حد برکت کا باعث ہے۔ وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ....: یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ قیامہ (۱۶ تا ۱۹) میں بیان ہوا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک دفعہ جلدی کرنے اور جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھنے سے منع فرما دیا، تو دوبارہ اس حکم کی کیا ضرورت تھی؟ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے اسے یوں حل فرمایا ہے : ’’جبرئیل جب قرآن لاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پڑھنے کے ساتھ پڑھنے لگتے کہ بھول نہ جاویں۔ اس کو پہلے منع فرمایا تھا سورۂ قیامہ میں اور تسلی کر دی تھی کہ اس کا یاد رکھوانا اور لوگوں تک پہنچوانا ذمہ ہمارا ہے، لیکن بندہ بشر ہے، شاید بھول گئے ہوں، پھر تقید کیا اور بھولنے پر مثل فرمائی آدم علیہ السلام کی۔‘‘ (موضح) وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ جلدی پڑھنے کے پیچھے اصل جذبہ زیادہ سے زیادہ علم کے حصول اور حفظ کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف جلدی کرنے سے منع فرمایا، مگر اصل جذبے کی تعریف کی اور اس کی تکمیل کے لیے دعا سکھائی، جیسا کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھاتے ہوئے رکوع کی حالت میں پایا تو صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے اور پھر اسی حالت میں رکوع میں مل گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((زَادَكَ اللّٰهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ)) [بخاري، الأذان، باب إذا رکع دون الصف : ۷۸۳ ]’’اللہ تمھاری حرص زیادہ کرے اور دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ دوبارہ ایسی جلدی سے منع کرنے کے ساتھ نیکی میں حرص کی تعریف فرمائی۔ ’’ رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ‘‘ میں ’’ عِلْمًا ‘‘ عام ہے اور اس سے مراد علم نافع ہے۔ دین یعنی قرآن و حدیث کا علم ہو یا دنیا کا ایسا علم جو دنیا و آخرت دونوں میں نافع ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے: ((اَللّٰهُمَّ انْفَعْنِيْ بِمَا عَلَّمْتَنِيْ وَ عَلِّمْنِيْ مَا يَنْفَعُنِيْ وَ زِدْنِيْ عِلْمًا)) [ترمذي، الدعوات، باب سبق المفردون....: ۳۵۹۹، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ و صححہ الألباني ] ’’اے اللہ ! مجھے اس کے ساتھ نفع دے جس کا تو نے مجھے علم دیا اور مجھے اس کا علم دے جو مجھے نفع دے اور مجھے علم میں زیادہ کر۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر دعا یہ تھی: ((اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ)) [بخاري، الدعوات، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ربنا آتنا....: ۶۳۸۹ ] ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا۔‘‘ مسلمانوں پر دنیا کی ہر ضرورت کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے، تاکہ انھیں غیر مسلموں کا محتاج نہ ہونا پڑے اور وہ دنیا میں اسلام کو غالب رکھ سکیں، مثلاً طب، زراعت، ہیئت، جغرافیہ، ہندسہ، سائنس، اسلحہ سازی وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بھی نئی چیز معلوم ہوتی اس سے جہاد میں فائدہ اٹھایا کرتے تھے، جیسا کہ جنگ احزاب میں خندق تیار فرمائی اور صحابہ اور تابعین مجاہدین نے جنگوں میں منجنیق کا استعمال فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے بحری جہاد کی خوشخبری دی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بحری بیڑا تیار کیا، جس کے نتیجے میں بحر روم پر مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا اور جدید سے جدید ایجادات اور تدابیر کے نتیجے میں سلطان محمد الفاتح رحمہ اللہ نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ ظاہر ہے کہ تیس فیصد خشکی پر بھی اسی کی حکومت ہو گی جو ستر فیصد سمندر پر اپنا تسلط منوا سکے۔ داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زرہ سازی کا فن سکھایا اور اسے بطور احسان قرآن مجید میں ذکر فرمایا۔ قرآن مجید میں احکام کی آیات اتنی نہیں جتنی زمین و آسمان، سورج، چاند، بحر و بر، نباتات و جمادات و حیوانات اور اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور کرنے کی تاکید والی آیات ہیں۔ مسلمانوں نے اس میں غفلت کی اور کفار نے ان پر محنت کرکے جدید سے جدید ایجادات، مثلاً مشین، موٹر، ریل، ہوائی جہاز، بجلی، بارود، بم، میزائل ، ایٹم، کمپیوٹروغیرہ تیار کرکے مسلمانوں کو اپنا محتاج بلکہ غلام بنا لیا۔ اب مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان تمام علوم میں مہارت حاصل کریں جو کفار کے ساتھ جہاد کے لیے ضروری ہیں اور اس طرح یہ سب کچھ علم دنیا ہونے کے باوجود علم آخرت بن جائے گا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم ’’وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ‘‘ کی تعمیل ہو گی۔ البتہ اس بات کا اہتمام نہایت ضروری ہے کہ یہ علوم سیکھنے والے قرآن و حدیث کے علم سے آراستہ اور یقین و ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کے جذبے سے سرشار ہوں، تاکہ وہ سائنس پڑھتے پڑھتے کفار سے متاثر ہو کر محض دنیا پرست اور ملحد نہ بن جائیں۔ کیونکہ یہ سب کچھ اس وقت مذموم ہو جائے گا جب اس سے مقصود صرف دنیا ہو اور آخرت سے غفلت اختیار کی جائے۔ ایسی صورت میں یہ تمام علوم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق بے علم ہو گا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (6) يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ هُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ﴾ [ الروم : ۶، ۷ ] ’’اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (علم نہیں رکھتے)۔ وہ دنیا کی زندگی کے ظاہر کا علم رکھتے ہیں اور وہ آخرت سے وہی غافل ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَ مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ﴾ [ البقرۃ : ۲۰۰ ] ’’پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے، اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ ان لوگوں کا علم، علم نافع نہیں، اس لیے اس سے پناہ مانگنی چاہیے، جیسا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: ((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ وَ مِنْ قَلْبٍ لَّا يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَّا يُسْتَجَابُ لَهَا)) [مسلم، الذکر و الدعاء، باب في الأدعیۃ : ۲۷۲۲ ] ’’اے اللہ! بے شک میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے دل سے جو خشوع نہ رکھے اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔‘‘