وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا
اور جو شخص اچھی قسم کے اعمال کرے اور وہ مومن ہو تو وہ نہ کسی بے انصافی سے ڈرے گا اور نہ حق تلفی سے۔
1۔ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ : ’’مِنَ الصّٰلِحٰتِ‘‘میں’’مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’کچھ نیک اعمال‘‘ کیا ہے۔ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے تمام اعمال صالحہ تو کر ہی نہیں سکتا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا اَمَرَهٗ ﴾ [عبس : ۲۳ ] ’’ہر گز نہیں، ابھی تک اس نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا۔‘‘ اس لیے وہ اتنے عمل ہی کا مکلف ہے جتنی اس میں طاقت ہے، فرمایا : ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ [البقرۃ : ۲۸۶ ] ’’اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ [ التغابن : ۱۶ ] ’’سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو۔‘‘ مفسرین نے اس سے مراد فرائض لیے ہیں۔ 2۔ عمل کی قبولیت کے لیے دو شرطیں بیان فرمائیں۔ عمل کا صالح ہونا یعنی کتاب و سنت کے مطابق ہونا اور عمل کرنے والے کا صاحب ایمان ہونا۔ نہ کافر کا کوئی عمل قبول ہے اور نہ وہ عمل جو کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو۔ دیکھیے سورۂ کہف کی آخری آیت۔ 3۔ فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا هَضْمًا : بے انصافی یہ ہے کہ کسی کو ان گناہوں پر سزا دی جائے جو اس نے نہیں کیے اور حق تلفی یہ ہے کہ کی ہوئی نیکیوں پر پانی پھیر دیا جائے۔ اسی کو سورۂ جن (۱۳) میں ’’بَخْسًا ‘‘اور ’’رَهَقًا ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن نے متعدد آیات میں جزا و سزا میں عدل و انصاف کا اعلان کیا ہے، مگر گناہ گار مومنوں کو معاف کر دینا فضل ہے جو عدل کے منافی نہیں۔