وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا
اور سب چہرے اس زندہ رہنے والے، قائم رکھنے والے کے لیے جھک جائیں گے اور یقیناً ناکام ہوا جس نے بڑے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔
1۔ وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ : ’’عَنَتْ‘‘ ’’عَنَا يَعْنُوْ عُنُوًّا‘‘ (ن)سے واحد مؤنث غائب،ماضی معلوم ہے، اصل میں ’’عَنَوَتْ‘‘ تھا، ذلیل اور عاجز ہو کر جھک جانا۔ اس میں سے اسم فاعل ’’عَانٍ‘‘ یا ’’اَلْعَانِيْ‘‘ آتا ہے، جس کا معنی قیدی ہے، کیونکہ قیدی بے حد عاجز، بے بس اور ذلیل ہوتا ہے۔ یعنی اس دن صرف تمام آوازیں ہی رحمان کے لیے پست نہیں ہوں گی بلکہ تمام چہرے، حتیٰ کہ ان سرکش متکبر لوگوں کے چہرے بھی اس حی و قیوم کے سامنے ذلیل قیدیوں کی طرح جھکے ہوں گے جن کی پیشانی دنیا میں کبھی اللہ کے سامنے جھکی نہ تھی۔ کیونکہ وہ سب فانی و محتاج ہیں اور انھیں حی و قیوم کے سامنے جھکے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ ’’ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ ‘‘ کی تفسیر آیت الکرسی (بقرہ : ۲۵۵) میں دیکھیے۔ 2۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا: یہاں ’’ ظُلْمًا ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑے ظلم کا بوجھ اٹھایا‘‘ کیا ہے۔ بڑے ظلم سے مراد مشرک ہونا اور مسلمان نہ ہونا ہے۔ (طبری) اس کا ترجمہ ’’کسی ظلم کا بوجھ اٹھایا‘‘ درست نہیں، کیونکہ گناہ گار مومن و موحد سزا پا کر یا سزا کے بغیر اللہ کے اذن سے جنت میں چلے جائیں گے اور جنت میں پہنچ جانے والا ناکام نہیں۔ دلیل اور تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۸۲)، بقرہ (۲۵۴) اور یونس (۱۰۶) کی تفسیر۔