قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس نے کہا میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی، سو میں نے رسول کے پاؤں کے نشان سے ایک مٹھی اٹھالی، پھر میں نے وہ ڈال دی اور میرے دل نے اسی طرح کرنا میرے لیے خوشنما بنادیا۔
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ....: میں نے اس آیت کی تفسیر کے لیے بہت زیادہ تفاسیر کا مطالعہ کیا، کئی اہل علم سے بھی پوچھا، جو کچھ تفاسیر میں لکھا ہے میں وہ نقل کرتا ہوں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ ‘‘ (میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی) یعنی میں نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا، جب وہ فرعون کو ہلاک کرنے کے لیے آئے تو ’’فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ ‘‘ (سو میں نے رسول کے پاؤں کے نشان سے ایک مٹھی اٹھا لی) یعنی جبریل علیہ السلام کی گھوڑی کے پاؤں کے نشان سے۔ یہی بات بہت سے مفسرین یا زیادہ تر مفسرین کے ہاں مشہور ہے۔‘‘ (ابن کثیر) جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا، اکثر مفسرین نے یہی تفسیر کی ہے، بلکہ بعض نے تو اس کے علاوہ کسی تفسیر کو سلف کی تفسیر سے انحراف قرار دیا ہے، یعنی سامری نے مٹی کی وہ مٹھی بچھڑے کے مجسمے میں ڈالی تو اس سے گائے کی آواز آنے لگی۔ مگر اس تفسیر کی قرآن، حدیث یا آیات کے سیاق میں کوئی دلیل نہیں۔ شروع سورت سے یہاں تک جبریل علیہ السلام کا کوئی ذکر نہیں کہ الف لام عہد کا مان کر جبریل علیہ السلام مراد لیے جائیں۔ نہ پورے قرآن میں جبریل علیہ السلام کے متعلق ’’الرَّسُوْلِ ‘‘ (معرف باللام) آیا ہے کہ ان کا لقب مان لیا جائے۔ پھر گھوڑی کا تو دور دور تک کچھ پتا نہیں۔ بعض تابعین کے اقوال یہاں دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ نہ وہ موقع پر موجود تھے اور نہ انھوں نے بتایا کہ یہ تفسیر انھوں نے کہاں سے لی۔ اگر انھوں نے پہلی کسی کتاب سے لی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے، تو ہم اس پر یقین نہیں کر سکتے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق یا تکذیب دونوں سے منع فرمایا ہے۔ شک والی بات علم نہیں ہو سکتی اور نہ قرآن مجید (جس میں کوئی شک نہیں) کی تفسیر شک والی بات کے ساتھ کرنا علم تفسیر ہے۔ اس تفسیر سے پیدا ہونے والے سوالات، مثلاً تمام لوگوں میں سے سامری نے جبریل علیہ السلام کو کیسے پہچانا؟ اسے کیسے معلوم ہوا کہ اس مٹھی میں کیا کرشمہ ہے وغیرہ، سب کے جوابات کے لیے مزید کہانیاں درج کی گئی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں۔ کئی مفسرین نے ابومسلم اصفہانی (معتزلی) کی تفسیر اختیار کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مفسرین نے جو کچھ فرمایا قرآن میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ چنانچہ اس کی اور توجیہ ہو سکتی ہے کہ ’’الرَّسُوْلِ ‘‘ سے مراد موسیٰ علیہ السلام ہیں اور رسول کے پاؤں کے نشان سے ایک مٹھی پکڑنے سے مراد یہ ہے کہ میں نے ان کی سنت اور ان کے طریقے سے کچھ حصہ اخذ کیا۔ بعض اوقات آدمی کہتا ہے : ’’فَلَانٌ يَقْفُوْ أَثَرَ فُلَانٍ وَ يَقْتَصُّ أَثَرَهُ‘‘ ’’فلاں شخص فلاں کے نشان قدم کا پیچھا کرتا ہے اور اس کے نشان قدم کے پیچھے جاتا ہے۔‘‘ جب وہ اس کے طریقے پر چلتا ہو۔مطلب یہ ہو گا کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب سامری کو ملامت کی اور اس سے قوم کو گمراہ کرنے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا ’’بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ ‘‘ یعنی مجھے معلوم ہو گیا کہ تم لوگ جس راہ پر ہو وہ حق نہیں تو ’’ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ (وَقَدْ كُنْتُ) ‘‘ اس سے پہلے اے رسول! میں نے آپ کے دین اور طریقے کا کچھ حصہ اختیار کیا تھا، ’’ فَنَبَذْتُهَا ‘‘ پھر میں نے اس طریقے کو پھینک دیا اور اسے چھوڑ کر بچھڑے کی پرستش میرے نفس نے میرے لیے خوشنما بنا دی۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے اسے دنیا اور آخرت کے عذاب کی اطلاع دی اور اس نے رسول کو غائب کے صیغے سے اسی طرح ذکر کیا جیسے آدمی اپنے سردار سے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امیر صاحب اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اور امیر صاحب کیا حکم دیتے ہیں؟ رہا اس کا موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا منکر ہونے کے باوجود انھیں رسول کہنا، تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول ذکر فرمایا: ﴿ وَ قَالُوْا يٰاَيُّهَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ ﴾ [ الحجر : ۶ ] ’’اور انھوں نے کہا اے وہ شخص جس پر یہ نصیحت نازل کی گئی ہے! بے شک تو تو دیوانہ ہے۔‘‘ حالانکہ وہ لوگ آپ پر نصیحت کا نزول تسلیم نہیں کرتے تھے۔ رازی لکھتے ہیں کہ ابومسلم نے جو ذکر کیا ہے وہ تحقیق کے زیادہ قریب ہے اور اس میں (پہلے) مفسرین کی مخالفت کے سوا کوئی خرابی نہیں۔ پھر رازی نے اس کی تائید میں کئی چیزیں ذکر کی ہیں۔ بہت سے بعد میں آنے والے مفسرین نے بھی یہ تفسیر اختیار کی ہے، مگر ’’بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ ‘‘ کے بعد ’’فَقَبَضْتُ قَبْضَةً ‘‘ کی تفسیر ’’وَقَدْ كُنْتُ قَبَضْتُ‘‘ کے ساتھ کرنا تکلف ہے، اسی طرح کسی کی پیروی کے لیے ’’ يَقْفُوْ‘‘ اور ’’يَقْتَصُّ أَثَرَهُ ‘‘تو معروف ہے مگر اس مفہوم کے لیے’’ يَقْبِضُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِهِ‘‘ کے استعمال کی لغت عرب میں کوئی نظیر نہ ابومسلم نے پیش کی ہے، نہ رازی نے اور نہ بعد میں آنے والے کسی بزرگ نے۔ پہلی تفسیر پر ابومسلم کا اعتراض کہ اس کی قرآن میں تصریح نہیں اس تفسیر پر بھی وارد ہوتا ہے کہ اس کی تصریح بھی قرآن میں نہیں، محض کھینچ کھانچ کر یہ مطلب نکالا گیا ہے۔ ایک اردو مفسر نے یہ بات نکالی ہے کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا۔ اس نے بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی۔ پھر مزید جسارت یہ کی کہ خود موسیٰ علیہ السلام کے سامنے ایک پر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی، اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آیا تھا اور ساتھ ہی یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے۔ رسول سے مراد ممکن ہے جبریل ہی ہوں، یا اس نے رسول کا لفظ خود موسیٰ علیہ السلام کے لیے استعمال کیا تھا تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی، وہ اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو ذہنی رشوت دینا چاہتا تھا۔ ( ملخص) مگر ساری قوم کے سامنے اس کے جھوٹ پر موسیٰ علیہ السلام جیسے پر جلال پیغمبر کا ذہنی رشوت لے کر خاموش رہنا اور صرف اسے سزا سنانے پر اکتفا کرنا اور قوم کے سامنے اس کے جھوٹ اور فریب کو واضح نہ کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک اور عقلی بزرگ نے ’’ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ ‘‘ کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس نے کہا کہ مجھے کشفی مشاہدہ ہوا جو صرف مجھی کو ہوا کہ جبریل علیہ السلام کے آتے ہی میں نے ان کے (یا ان کے گھوڑے کے) نقش قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھالی ہے اور ایک بچھڑا بنا کر اس میں ڈال دی ہے، جس سے وہ بولنے لگا، مگر اب آپ کے ڈانٹنے سے معلوم ہوا کہ یہ محض میرے نفس کا دھوکا تھا۔ (ملخص) تعجب ہوتا ہے کہ یہ حضرات بات بناتے بناتے کہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے کی تفسیر کشفی مشاہدہ قادیانی طرز تفسیر کے سوا کچھ نہیں۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام قوم کے سامنے اس فریب کا پردہ چاک نہ کریں؟ مجھے تو سلامتی اسی میں نظر آتی ہے کہ جس آیت کی تفصیل قرآن مجید کے الفاظ سے واضح نہ ہو اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہو، اہل کتاب کی کسی روایت پر یقین کرنے یا زبردستی کوئی مطلب نکالنے کے بجائے متشابہات میں سے سمجھ کر اس پر مجمل ایمان رکھا جائے اور اس کی تفصیل اللہ کے سپرد کر دی جائے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ هُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ وَ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗ اِلَّا اللّٰهُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا يَذَّكَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ [ آل عمران : ۷ ] ’’وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری، جس میں کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں۔‘‘ آخر ہم حروف مقطعات، اللہ تعالیٰ کی صفات، سد ذوالقرنین، دابۃ الارض، یاجوج ماجوج اور قرآن مجید کی کتنی ہی باتوں کی تفصیل نہیں جانتے، مگر ہمارا ان پر ایمان ہے۔ سامری کے جواب کی تفصیل میں اگر ہمارا کوئی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور ذکر فرما دیتا۔ سو ہمارا ایمان ہے کہ اگرچہ ہم تفصیل نہیں جانتے مگر جو ہمارے رب نے فرمایا وہ حق ہے۔