قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ
کہا تو اے سامری! تیرا معاملہ کیا ہے؟
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ : ہارون علیہ السلام سے جس زبانی اور عملی شدت کے ساتھ سوال ہوا تھا سامری سے سوال کرتے ہوئے وہ شدت نظر نہیں آتی، کیونکہ اپنوں پر غصہ زیادہ آتا ہے اور ان کے معقول عذر بیان کرنے پر غصہ ہی نہیں دل کا ملال بھی ختم ہو جاتا ہے، بلکہ ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ چنانچہ ہارون علیہ السلام کی بات سن کر موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی: ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَ لِاَخِيْ وَ اَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ﴾ [ الأعراف : ۱۵۱ ] ’’اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر لے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم والا ہے۔‘‘ اس کے برعکس سامری کی بدطینتی پہلے ہی معلوم تھی، سو سوال میں وہ شدت نہیں مگر اس کا عذر گناہ سن کر، جو بدتر از گناہ تھا، اسے ایسی سزا سنائی جو شاید کسی کو بھی نہ دی گئی ہو۔ اس کی مثال جنگ تبوک میں تین مخلص مسلمانوں کے لشکر سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان سے بائیکاٹ ہے، جس کا نتیجہ ان کے اخلاص و امانت کی بدولت ان کی توبہ کی قبولیت اور قرآن میں ہمیشہ کے لیے ذکر خیر کی صورت میں نکلا۔اس کے برعکس منافقین کا عذر بظاہر قبول کر لیا جاتا ہے، مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں کسی جنگ میں ساتھ لے جانے، ان کا جنازہ پڑھنے، ان کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع کر دیا جاتا ہے اور آخرت کے بدترین عذاب کی نوید سنا دی جاتی ہے۔