قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا
کہا اے ہارون! تجھے کس چیز نے روکا، جب تو نے انھیں دیکھا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں۔
قَالَ يٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ....: آیت (۸۶) سے (۸۹) تک موسیٰ علیہ السلام کی شدید غصے اور افسوس کے ساتھ واپسی اور قوم کو ڈانٹنے اور ان سے سوال جواب کا ذکر ہے۔ اس کے بعد دو آیات میں اس عرصے میں ہارون علیہ السلام کی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی اور قوم کے ان کی کوئی بھی بات نہ ماننے کا ذکر ہے، جس سے مقصود ہارون علیہ السلام کا دامن ہر کوتاہی سے پاک قرار دینا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو بچھڑے کی عبادت کرتے دیکھا تھا، انھیں ہارون علیہ السلام کی اصلاح کی کوشش اور نصیحت کا علم نہ تھا، اس لیے قوم کو ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ہی انھوں نے شدید غصے کی حالت میں تورات کی تختیوں کو پھینک دیا اور ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے( اعراف : ۱۵۰، ۱۵۱) اور کہنے لگے کہ جب تم نے دیکھا کہ یہ گمراہ ہو گئے ہیں تو تمھیں کس چیز نے روکا کہ میرے پیچھے چلے آؤ اور آ کر مجھے ان کے گمراہ ہونے کی خبر دو، تو کیا تم نے میرا حکم نہیں مانا؟