أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا
تو کیا وہ دیکھتے نہیں کہ وہ نہ ان کی کسی بات کا جو اب دیتا ہے اور نہ ان کے کسی نقصان کا مالک ہے اور نہ کسی نفع کا۔
اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا....: یہ وہی دلیل ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم کے سامنے پیش کی تھی: ﴿ يٰاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ وَ لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا ﴾ [ مریم : ۴۲ ] ’’اے میرے باپ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کسی کام آتی ہے۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام کے پیش کردہ اکثر دلائل وہی ہیں جو ان کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیے تھے، دیکھیے سورۂ شعراء۔ بنی اسرائیل کی عجائب پرستی دیکھیے کہ دھات کے بنے ہوئے بچھڑے کے بے جان مجسمے کو صرف آواز کی وجہ سے معبود، حاجت روا اور مشکل کشا مان بیٹھے۔ مجسمہ بھی اس جانور کا جسے تمام جانوروں سے سادہ لوح سمجھا جاتا ہے اور جو خود انسان کا خدمت گار اور اس کی خوراک ہے۔ یہ نہ سوچا کہ اس مجسمے سے تو وہ خود ہزار گنا بااختیار ہیں کہ بول سکتے ہیں، اپنی مرضی سے چل پھر سکتے ہیں اور بقدر استطاعت کچھ نہ کچھ فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں، جب کہ بت بچھڑے کا ہو یا انسان کا، بات کرنے، چلنے پھرنے، سننے دیکھنے، ہر چیز سے عاری ہے۔ سورۂ اعراف کی آیات (۱۹۴، ۱۹۵) میں یہ بات نہایت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔