سورة طه - آیت 84

قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَىٰ أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

8کہا وہ یہ میرے نشان قدم پر ہیں اور میں تیری طرف جلدی آگیا اے میرے رب! تاکہ تو خوش ہوجائے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰى اَثَرِيْ : یہاں ایک سوال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں جلدی کی وجہ بتانے کے بجائے کہ پروردگارا! میں تجھے راضی کرنے کے لیے جلدی آ گیا، یہ کیوں ضروری سمجھا کہ پہلے یہ عرض کریں کہ قوم کے لوگ میرے پیچھے میرے نشان قدم پر آ رہے ہیں، یعنی نشان مٹنے سے بھی پہلے وہ اس پر چلے آ رہے ہیں، یعنی میں کوئی زیادہ جلدی نہیں آیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے بے خبر نہ تھا کہ وہ کیوں جلدی آ گئے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عتاب قوم کے ساتھ نہ آنے پر تھا اور یہ سوال اپنے کلیم کی تربیت کے لیے تھا کہ تمھارا پہلے آنا مناسب نہ تھا، بلکہ غلامی سے تازہ تازہ نکلی ہوئی قوم کے ساتھ رہنا ضروری تھا، تاکہ کتاب ملنے سے پہلے ہر قدم پر ان کی رہنمائی کرتے اور ان کی غلطیوں پر سرزنش کرتے۔ ویسے بھی کسی قوم کے رئیس کا حق یہ ہے کہ وہ ان کے پیچھے رہ کر ان کے ہر فرد کا خیال رکھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو اہل و عیال سمیت رات کو نکلنے کا حکم دیتے ہوئے یہ ادب سکھایا: ﴿ وَ اتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ ﴾ [ الحجر : ۶۵ ] ’’اور خود ان کے پیچھے پیچھے چل۔‘‘اور جیسا کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ذکر فرمایا: ((كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّفُ فِي الْمَسِيْرِ فَيُزْجِي الضَّعِيْفَ وَيُرْدِفُ وَيَدْعُوْ لَهُمْ)) [أبوداؤد، الجہاد، باب في لزوم الساقۃ : ۲۶۳۹۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۲۱۲۰ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پیچھے رہتے، کمزور (کی سواری) کو ہانکتے اور (پیدل کو) پیچھے بٹھا لیتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام کا وُفور شوق میں جلدی آنا اگرچہ بری بات نہ تھی مگر بادشاہوں کے حضور پیش ہونے کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور شاہوں کے شاہ کا ادب تو سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کی ایک مثال ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی جلدی ہے کہ وہ مسجد میں پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے، انھوں نے صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((زَادَكَ اللّٰهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ)) [ بخاري، الأذان، باب إذا رکع دون الصف : ۷۸۳ ] ’’اللہ تعالیٰ تمھاری حرص زیادہ کرے اور دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ [ قاسمی، بقاعی، ابن عاشور ]