قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَىٰ
انھوں نے کہا اے موسیٰ ! یا تو یہ کہ تو پھینکے اور یا یہ کہ ہم پہلے ہوں جو پھینکے۔
قَالُوْا يٰمُوْسٰى اِمَّا اَنْ تُلْقِيَ....: فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے عصا کو سانپ بنتے ہوئے دیکھا تو لوگوں کی نگاہ میں اسے بے وقعت بنانے کے لیے اسے جادو قرار دے کر کہا کہ ہم بھی مقابلے میں ایسا ہی جادو لائیں گے، چنانچہ اس کے مطابق جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بننے کے شعبدے کی تیاری کی اور میدان میں آ کر یہ پیش کش کی جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اس پیش کش کے الفاظ سے اپنے جادو پر ان کے اعتماد کا اظہار بھی ہوتا ہے اور اس بات کا بھی کہ اگر تم پہل پر تیار نہیں ہو تو ہم اس کے لیے بالکل تیار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے جس خیال سے بھی یہ پیش کش کی ہو اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ ان کے جادو کا سارا کمال لوگوں کے سامنے آنے کے بعد اسے حق کے مقابلے میں بے حقیقت ثابت کیا جائے، جیسا کہ اس سے پہلے خود فرعون کے منہ سے موسیٰ علیہ السلام کو اختیار دلوایا گیا کہ مقابلے کامقام اور دن وہ مقرر کریں۔