فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا ۚ وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَىٰ
سو تم اپنی تدبیر پختہ کرو، پھر صف باندھ کر آجاؤ اور یقیناً آج وہ کامیاب ہوگا جس نے غلبہ حاصل کرلیا۔
1۔ فَاَجْمِعُوْا كَيْدَكُمْ....:’’جَمَعَ يَجْمَعُ‘‘(ف)جمع کرنااور’’أَجْمَعَ‘‘(افعال)پختہ کرنا،پختہ ارادہ کرنا،اتفاق کرنا۔لہٰذا’’فَاَجْمِعُوْا ‘‘ (افعال)کا ترجمہ ’’جمع کرو یا اکٹھا کرو‘‘ درست نہیں۔ یعنی یہ تذبذب اور اختلاف چھوڑو کہ موسیٰ ( علیہ السلام ) کا مقابلہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، تم اپنا ارادہ اور اپنی خفیہ تدبیر پختہ اور مستحکم کرو اور پھر صف کی صورت میں اکٹھے ہو کر میدان میں آؤ، تاکہ سب پر تمھارا رعب پڑے اور دفعتاً ایسا حملہ کرو کہ حریف کے قدم اکھڑ جائیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ جادوگر بہت بڑی تعداد میں تھے اور انھوں نے ایک بے ہنگم ہجوم کی صورت میں سامنے آنے کے بجائے باقاعدہ فوجی ترتیب سے آگے پیچھے صفیں باندھ کر اپنی ہیبت اور شان و شوکت کے اظہار کا فیصلہ کیا۔ ’’ صَفًّا ‘‘ یہاں جنس کے معنی میں ہے اور اس سے ایک صف مراد نہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ صَفًّا ﴾ [ النبا : ۳۸ ] ’’جس دن روح اور فرشتے صف بنا کر کھڑے ہوں گے۔‘‘ فرعون کے حکم سے مصر کے تمام شہروں میں سے ہر ماہر جادوگر وہاں لایا گیا تھا، اس لیے مراد کئی صفیں ہیں۔ 2۔ وَ قَدْ اَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى : ’’اسْتَعْلٰى ‘‘ ’’عَلَا يَعْلُوْ‘‘ سے استفعال ہے۔ زائد حروف مبالغے کے لیے ہیں، یعنی آج کے مقابلے کی اتنی اہمیت ہے کہ جس نے اس میں واضح اور نمایاں غلبہ حاصل کر لیا اس کا سکہ ہمیشہ کے لیے بیٹھ گیا اور جو اس میں رہ گیا پھر کبھی سر نہ اٹھا سکے گا۔