قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ
کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں ہماری سر زمین سے اپنے جادو کے ذریعے نکال دے اے موسیٰ !
1۔ قَالَ اَجِئْتَنَا....: فرعون نے یہ بات تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد نہیں کہی، کیونکہ اگر ایسا ہو تو جادوگروں سے ہونے والا یہ مقابلہ طوفان، جراد، قمل وغیرہ حتیٰ کہ سمندر پھٹنے کے واقعہ کے بعد ماننا پڑے گا، کیونکہ ’’ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا ‘‘ میں یہ سب شامل ہیں۔ اس لیے قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی صراحت کے مطابق فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ید بیضا والا معجزہ دیکھ کر یہ بات کہی۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۰۶ تا ۱۲۶) اور شعراء (۳۰ تا ۵۱)۔ (ابن عاشور) 2۔ لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا : ہر باطل پرست اور جابر و ظالم حکمران جب داعی حق کے سامنے لاجواب ہو جاتا ہے تو اس کی دعوت ٹھکرانے کے لیے یہی ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے، یعنی اسے اقتدار کا بھوکا ہونے کا طعنہ دیتا ہے، گویا اقتدار پر قابض رہنا اس کا تو پیدائشی حق ہے مگر کسی دوسرے کے لیے اس کے قریب پھٹکنا بھی جائز نہیں۔ 3۔ ’’ بِسِحْرِكَ ‘‘ میں ’’جادو‘‘ کی اضافت موسیٰ علیہ السلام کے لیے آنے والی ضمیر (کاف) کی طرف کرنے میں ان معجزوں کی تحقیر مراد ہے کہ تو اپنے اس بے قدر و قیمت جادو کے ذریعے سے ہمیں سرزمین مصر سے نکالنا چاہتا ہے۔ تیرے اس جادو کی ہمارے کامل اور ماہر فن جادوگروں کے جادو کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟