مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ
اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک اور بار نکالیں گے۔
مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِيْهَا نُعِيْدُكُمْ....: یعنی تم سب کے باپ آدم علیہ السلام کا پتلا مٹی سے بنایا گیا اور تمھاری غذائیں اور ضرورت کی تمام چیزیں بھی مٹی سے نکلتی ہیں۔ یہ پہلا مرحلہ ہے جو موت تک چلتا ہے۔ دوسرا مرحلہ یہ کہ موت کے بعد دوبارہ مٹی میں جاؤ گے، پھر کوئی انسان قبر میں دفن ہو یا نہ ہو، بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کے اجزا مٹی میں جائیں گے۔ تیسرے مرحلے میں قیامت کے دن انھی اجزا کو دوبارہ روح پھونک کر زندہ کر دیا جائے گا، فرمایا: ﴿ قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَ فِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ ﴾ [ الأعراف : ۲۵ ] ’’فرمایا تم اسی میں زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے نکالے جاؤ گے۔‘‘ بعض روایات میں دفن کے وقت مٹی کی پہلی مٹھی ڈالتے ہوئے ’’مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ ‘‘ ، دوسری مٹھی ڈالتے ہوئے ’’وَ فِيْهَا نُعِيْدُكُمْ ‘‘ اور تیسری مٹھی ڈالتے وقت ’’وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى ‘‘ پڑھنے کا ذکر ہے، مگر وہ روایات ضعیف ہیں، البتہ آیت پڑھے بغیر تین مٹھی مٹی ڈالنا مسنون ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ((أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلٰی جِنَازَةٍ ثُمَّ أَتٰی قَبْرَ الْمَيِّتِ فَحَثٰی عَلَيْهِ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهٖ ثَلاَثًا)) [ابن ماجہ، الجنائز، باب ما جاء في حثو التراب في القبر: ۱۵۶۵، صحیح ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازے پر نماز پڑھی، پھر میت کی قبر پر آئے اور اس کے سر کی طرف (مٹی کی) تین مٹھیاں ڈالیں۔‘‘