وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي
اور میری زبان کی کچھ گرہ کھول دے۔
1۔ وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ....: سورۂ شعراء کی آیت (۱۳) : ﴿ وَ يَضِيْقُ صَدْرِيْ وَ لَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ ﴾سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں وہ روانی نہ تھی جسے وہ اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ فرعون کو بھی ان پر طعن کے لیے یہی کمزوری ملی کہ کہا : ﴿ وَ لَا يَكَادُ يُبِيْنُ ﴾ [الزخرف : ۵۲ ] ’’اور یہ (موسیٰ) قریب نہیں کہ بات واضح کرے۔‘‘ اگرچہ فرعون کی بات کا کچھ اعتبار نہیں، کیونکہ جھوٹا الزام لگا دینا اس سے کچھ بعید نہ تھا۔ الغرض ! اس کے لیے انھوں نے دو دعائیں کیں، ایک تویہ کہ اے میرے رب! میری زبان کی کچھ گرہ کھول دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں۔ کچھ گرہ کا مفہوم ’’ عُقْدَةً ‘‘ کی تنوین سے ظاہر ہو رہا ہے۔ زبان سے مکمل گرہ دور کرنے کی دعا کے بجائے انھوں نے یہ کہہ کر اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے لیے نبوت کی درخواست کر دی کہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں اور میرے اہلِ خانہ میں سے میرا بوجھ بٹانے والے ہوں گے۔ اہلِ علم فرماتے ہیں کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی کے لیے موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ بہتر دعا نہیں کی۔ بعض تفاسیر میں موسیٰ علیہ السلام کے بچپن میں انگارا منہ میں ڈالنے کا ذکر ہے، مگر وہ اسرائیلی روایات میں سے ہے، جن سے کسی بات کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ 2۔ وَ اجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا....: یعنی مددگار جو اس عظیم بوجھ کو اٹھانے میں میرا شریک ہو۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ایسے بڑے پیغمبروں کو (ساری) خلق کی طرف بہت (یعنی مکمل) خیال نہیں ہوتا، ایک پیش کار چاہیے کہ خلق کو سہج میں سمجھائے، ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ابتدا میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تبلیغ ہی سے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، جن کا شمار کبار صحابہ میں ہے۔‘‘ (موضح)