وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
اور کیا تیرے پاس موسیٰ کی خبر پہنچی ہے۔
1۔ وَ هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى: قرآن کی عظمت کے ذکر اور دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشقت اور تکلیف کی طرف اشارہ فرما کر اب یہاں سے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے، اس سے مقصود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے، کیونکہ جن دنوں یہ سورت نازل ہوئی مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی حالات درپیش تھے، جیسے موسیٰ علیہ السلام کو پیش آچکے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ آیت میں ’’اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‘‘ کے ساتھ توحید کا جو بیان ہوا تھا اس کی مزید وضاحت مقصود ہے کہ ہر نبی یہی دعوت لے کر آیا۔ خصوصاً گزشتہ انبیاء میں سے جس نبی کے واقعات سب سے زیادہ مشہور ہیں انھیں بھی پہلی وحی میں آگاہ کر دیا گیا : ﴿ اِنَّنِيْ اَنَا اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِيْ ﴾ [طٰہٰ : ۱۴ ] اور سورت کے آخر میں بھی یہی بات دہرائی : ﴿ اِنَّمَا اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴾ [طٰہٰ : ۹۸ ] ’’تمھارا معبود تو اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔‘‘ ’’ وَ هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى ‘‘ یہ’’ مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى ‘‘ پر عطف ہے، یعنی نزول وحی آپ کے لیے باعث شقاوت نہیں بلکہ باعث سعادت ہے، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے لیے یہ نعمت باعث سعادت تھی۔ اور کیا آپ کو موسیٰ کی خبر پہنچی کہ ان کو یہ سعادت ملنے کا آغاز کیسے ہوا؟ استفہام ان کی خبر سننے کا شوق دلانے کے لیے ہے، پوچھنے کے لیے نہیں۔ آگ دیکھنے کا ذکر مزید شوق دلانے کے لیے ہے کہ معلوم ہو آگ دیکھنے کے بعد کیا ہوا؟ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مدین میں دس سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام اپنے اہل و عیال سمیت مصر آ رہے تھے۔ اس قصے کا کچھ حصہ سورۂ یونس اور سورۂ اعراف میں گزر چکا ہے ۔یہاں جو بات ذکر ہوئی ہے اس سے پہلے کی سرگزشت کا ذکر سورۂ قصص میں ہے۔ 2۔ ’’جب اس نے آگ دیکھی‘‘ سے معلوم ہوا کہ یہ رات کا وقت تھا اور سردی کا موسم تھا۔ گھر والے ساتھ تھے اور سب کو رات گزارنے کے لیے آگ کی ضرورت تھی۔ سورۂ قصص (۲۹) اور سورۂ نمل (۷) میں ہے : ﴿ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم تاپ لو۔‘‘ ’’ اَوْ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى ‘‘ سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام راستہ بھول گئے تھے، آگ جلانے کا پتھر (چقماق) پاس نہیں تھا، اگر تھا تو سردی کی شدت یا لکڑیوں کی نمی کی وجہ سے آگ نہیں جل رہی تھی۔ اندھیرے میں آگ کے ذریعے سے متوجہ کرنے میں ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام گمراہی کی تاریکی میں ہدایت کی روشنی کا باعث بنیں گے۔ [ التحریر و التنویر] 3۔ اِنِّيْ اٰنَسْتُ نَارًا : ’’آنَسَ ‘‘ (افعال) اس نے واضح طور پر دیکھا، اسی لیے آنکھ کی پتلی کو ’’انسان العین‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ اسی سے کوئی چیز واضح معلوم ہوتی ہے۔ ’’إِنَّ‘‘کے ساتھ تاکید اور لفظ ’’اٰنَسْتُ ‘‘کے استعمال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پورے یقین کے ساتھ ایک بہت بڑی آگ دیکھنے کا ذکر فرما رہے ہیں، کیونکہ ’’ نَارًا ‘‘ کی تنوین بھی تعظیم کے لیے ہے۔ یہ آگ موسیٰ علیہ السلام کو متوجہ کرنے کے لیے تھی جو انھیں ایک درخت میں لگی ہوئی نظر آئی اور درخت ہی سے آواز آئی کہ بے شک میں تیرا رب ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نور نہیں تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تو جواب ’’ لَنْ تَرٰنِيْ ‘‘ ملا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۴۳)۔ 4۔ لَعَلِّيْ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ : ’’ قَبَسٌ‘‘ مصدر بمعنی مفعول، اخذ کی ہوئی چیز۔ آگ جلانے کے لیے جلتی ہوئی آگ میں سے لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ کے سرے پر آگ کا شعلہ لیا جائے تو اسے ’’قَبَسٌ‘‘ کہتے ہیں اور ’’جَذْوَةٌ‘‘ بھی۔ ’’جَذْوَةٌ‘‘ کا ایک معنی انگارا بھی ہے۔ (قاموس) 5۔ هُدًى : یعنی کوئی راستہ بتانے والا مل جائے، یا آگ کی روشنی میں راستے کے آثار مل جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبان پر وہی چیز جاری فرما دی جو فی الواقع وجود میں آنے والی تھی، چنانچہ انھیں کفر کی برودت سے بچانے والا ایمان کا شعلہ بھی مل گیا اور صراط مستقیم کی رہنمائی بھی حاصل ہو گئی۔ 6۔ ’’نُوْدِيَ ‘‘(آواز دی گئی) یہ آواز ایک درخت سے آ رہی تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۳۰) فعل مجہول لانے میں بھی یہ جاننے کا شوق ابھارنا مقصود ہے کہ آواز دینے والا کون تھا اور اس نے کیا آواز دی؟