إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے عنقریب ان کے لیے رحمان محبت پیدا کر دے گا۔
سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا: ’’وُدٌّ ‘‘ اور ’’حُبٌّ ‘‘ ہم معنی ہیں۔ ’’وُدًّا ‘‘ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ کافروں کے برے عقائد و اعمال اور ان کے انجام بد کا ذکر کرنے کے بعد ایمان اور عمل صالح والوں پر اپنے انعامات کا ذکر فرمایا۔ اس آیت کے تین معنی ہو سکتے ہیں اور تینوں درست ہیں، جن کی قرآن و حدیث سے تائید ہوتی ہے۔ اللہ کے کلام سے بڑھ کر جامع کلام کوئی نہیں کہ جس کے تھوڑے سے کلمات میں بہت سے معانی جمع ہیں۔ پہلا معنی یہ ہے کہ جو لوگ صدق دل سے ایمان لائے اور انھوں نے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کتاب و سنت کے مطابق اخلاص کے ساتھ عمل کیے (کیونکہ عمل صالح کے تین اجزا ہیں : ایمان، اخلاص اور اتباع کتاب و سنت) تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایمان والوں کے دلوں میں ان کے لیے عظیم محبت رکھ دے گا، جب کہ دشمنوں کے دلوں میں ان کی ہیبت اور رعب ڈال دے گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب ایک مہینے کی مسافت پر دور دشمن پر پڑ جاتا تھا۔ اصبہانی نے فرمایا کہ یہ محبت انھیں لوگوں کی محبت حاصل کرنے کی کسی کوشش یا لوگوں کی دوستی کے اسباب میں سے کسی سبب، مثلاً قرابت، کسی پر احسان، مروت یا خوش اخلاقی وغیرہ کے بغیر محض رحمان کی عنایت سے حاصل ہوتی ہے (جن لوگوں سے وہ ملا بھی نہیں ہوتا وہ بھی اس سے محبت رکھتے ہیں)۔ (بقاعی) صفت رحمان اور دلوں میں محبت پیدا کرنے کے درمیان مناسبت بالکل واضح ہے۔قرآن مجید میں اس کی مثال موسیٰ علیہ السلام کو محبوبِ خلائق بنانا ہے، فرمایا : ﴿ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ﴾ [طٰہٰ : ۳۹ ] ’’اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے عظیم محبت ڈال دی۔‘‘ اسی طرح ’’رَبُّنَا اللّٰهُ ‘‘ (ہمارا رب اللہ ہی ہے) کہہ کر استقامت اختیار کرنے والوں کو فرشتے بشارت دیتے ہیں : ﴿ نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ﴾ [حٰمٓ السجدۃ : ۳۱ ] ’’ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔‘‘ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا أَحَبَّ اللّٰهُ الْعَبْدَ نَادَی جِبْرِيْلَ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهٗ جِبْرِيْلُ فَيُنَادِيْ جِبْرِيْلُ فِيْ أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوْهٗ فَيُحِبُّهٗ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوْضَعُ لَهٗ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ )) [بخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللّٰہ علیہم : ۳۲۵۹، ۷۴۸۵ ] ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو بلاتا ہے (اور کہتا ہے کہ) بے شک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل بھی اس سے محبت کرتا ہے اور آسمان والوں میں اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے، اس لیے تم سب اس سے محبت کرو، تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘ صحیح مسلم میں مزید یہ الفاظ ہیں : (( وَإِذَا أَبْغَضَ اللّٰهُ عَبْدًا دَعَا جِبْرَئِيْلَ فَيَقُوْلُ إِنِّيْ أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ، قَالَ: فَيُبْغِضُهُ جِبْرَئِيْلُ ، ثُمَّ يُنَادِيْ فِيْ أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوْهُ، قَالَ فَيُبْغِضُوْنَهُ، ثُمَّ تُوْضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ )) [مسلم، البر والصلۃ، باب إذا أحب اللہ عبدا، أمر جبرئیل....: ۲۶۳۷ ] ’’اور جب وہ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبریل کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں، تم بھی اس سے بغض رکھو۔‘‘ فرمایا : ’’تو جبریل اس سے بغض رکھتا ہے، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کر دیتا ہے کہ اللہ فلاں سے بغض رکھتا ہے، اس لیے تم بھی اس سے بغض رکھو۔‘‘ فرمایا : ’’تو وہ اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں دلی دشمنی رکھ دی جاتی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی جہاں مسلمان انتہائی مظلومیت و کس مپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے، گویا اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ عنقریب حالات بدلیں گے (لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے) اور تم ذلیل و رسوا ہونے کے بجائے محبوبِ خلائق بن کر زندگی گزارو گے۔ چنانچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی وہ محبت پیدا ہوئی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ دوسرا معنی اس آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان اور عمل صالح والوں کے لیے آپس میں محبت پیدا فرما دے گا، جو پہلے جانی دشمن تھے ایمان کے بعد دلی دوست بن جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِيْ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ (62) وَ اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّا اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ اِنَّهٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ﴾ [الأنفال : ۶۲، ۶۳ ] ’’وہی ہے جس نے تجھے اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی اور ان کے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی۔ اگر تو زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈالتا اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی، بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ یہ رحمان کی اس رحمت ہی کا نتیجہ ہے کہ مدتوں لڑنے والے اوس و خزرج بھائی بھائی بن گئے، حبش کے بلال، روم کے صہیب، ایران کے سلمان، مدینہ کے انصار اور مکہ کے قریش آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور ’’اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ‘‘ کا عملی نقشہ دنیا کے سامنے آ گیا۔ اگر ان کی کوئی باہمی رنجش رہ بھی گئی تو اللہ تعالیٰ نے جنت میں جانے سے پہلے اسے دور کرنے کا وعدہ فرمایا۔ دیکھیے سورۂ حجر (۴۷) جیسا کہ اوپر گزرا، یہ محبت ایمان داروں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے، کفار کے دلوں میں نہیں، اس کی مثال ثمامہ بن اثال اور ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنھما ہیں جنھوں نے شہادت دی کہ اسلام لانے سے پہلے ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مبغوض کوئی نہ تھا، لیکن پھر ایمان لانے کے بعد آپ سے بڑھ کر محبوب کوئی نہ تھا۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ ’’وُدًّا ‘‘ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، محبوب چیز، یعنی ایمان اور عمل صالح والے جو چیز محبوب رکھیں گے، پسند کریں گے رحمان جنت میں انھیں وہی عطا فرمائے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ﴾ [حٰمٓ السجدۃ : ۳۱ ] ’’اور تمھارے لیے اس (جنت) میں وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔‘‘ یہ معنی ابومسلم نے بیان فرمایا ہے۔ (قاسمی)