كَلَّا ۚ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا
ہرگز نہیں! ہم ضرور لکھیں گے جو کچھ یہ کہتا ہے اور اس کے لیے عذاب میں سے بڑھائیں گے، بہت بڑھانا۔
1۔ ’’ كَلَّا ‘‘یہ لفظ انکار اور ڈانٹ کے لیے آتا ہے، یعنی یہ دونوں باتیں ہر گز نہیں ہیں، تو پھر ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ اس نے اپنے پاس سے ایک جھوٹی بات اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دی ہے۔ یہاں سورۂ مریم میں اس تیسری بات کا ذکر نہیں، کیونکہ اس سے پہلے سورۂ بقرہ میں یہود کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے یہ بات گزر چکی ہے اور قرآن کی آیات ایک دوسری کی تفسیر کرتی ہیں، فرمایا : ﴿ وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ [البقرۃ : ۸۰ ] ’’اور انھوں نے کہا ہمیں آگ ہر گز نہیں چھوئے گی مگر گنے ہوئے چند دن۔کہہ دے کیا تم نے اللہ کے پاس کوئی عہد لے رکھا ہے؟ تو اللہ کبھی اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا، یا تم اللہ پر وہ بات کہتے ہو جو تم نہیں جانتے۔‘‘ (شنقیطی) 2۔ وَ نَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا : یعنی ہم اسے کئی گنا زیادہ عذاب دیں گے، ایک عذاب کفر کا، ایک استہزا اور مذاق اڑانے کا، ایک اللہ کی راہ سے روکنے کا، ایک دوسروں کو کفر کی راہ پر لگانے کا، ایک فساد پھیلانے کا۔ مزید دیکھیے سورۂ نحل (۸۸)، اعراف (۳۸) اور عنکبوت (۱۳) اسی طرح دنیا میں بھی مال و اولاد اور ہر قسم کی زیب و زینت کے ذریعے سے اسے عذاب دیں گے، پھر موت اور آخرت میں مزید عذاب دیں گے، فرمایا : ﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا ﴾ [التوبۃ : ۸۵ ] ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان (اموال و اولاد) کے ذریعے سے دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔‘‘