سورة مريم - آیت 75

قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے جو شخص گمراہی میں پڑا ہو تو لازم ہے کہ رحمان اسے ایک مدت تک مہلت دے، یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے، یا تو عذاب اور یا قیامت کو، تو ضرور جان لیں گے کہ کون ہے جو مقام میں زیادہ برا اور لشکر کے اعتبار سے زیادہ کمزور ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ....: اس سوال کے جواب میں کہ ہم کفار سے کیا کہیں؟ حکم ہوا کہ ان سے کہو، آؤ ! مباہلہ کر لیں اور ہم تم دونوں مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو فریق گمراہی پر ہے اسے اللہ تعالیٰ ایک مدت تک مہلت دے اور اسے اس کی اسی حالت میں رکھے، تاکہ کفار جب اس استدراج اور مہلت کی وجہ سے کفر کی حالت میں فوت ہوں تو انھیں پتا چل جائے کہ کس کے رہنے کی جگہ بد ترین اور کس کا لشکر اور جتھا کمزور ترین ہے۔ اس تفسیر میں ’’فَلْيَمْدُدْ ‘‘ کو اصل معنی ’’امر‘‘ پر رکھا گیا ہے۔ ابن کثیر اور ابن جریر نے صرف یہی تفسیر فرمائی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثال سورۂ آل عمران کی آیت (۶۱) اور سورۂ بقرہ کی آیت (۹۴) ہے۔ (شنقیطی) 2۔ دوسری تفسیر اس آیت کی یہ ہے کہ اس سوال کے جواب میں کہ ہم کفار کی اس دلیل کا کیا جواب دیں؟ حکم ہوا کہ ان سے کہو کہ جو لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں اللہ تعالیٰ نے طے کر رکھا ہے کہ انھیں کچھ نہ کچھ مہلت دے، تاکہ ان پر حجت تمام ہو جائے۔ یہ نہ کہیں کہ ہمیں سوچنے کا وقت نہیں ملا۔ پھر جب دنیا ہی میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں گے، یا موت کے وقت اس عذاب کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے، تو خود ہی اچھی طرح جائزہ لے لیں گے کہ کس کی رہنے کی جگہ زیادہ بری اور کس کا جتھا اور لشکر زیادہ کمزور ہے۔ آیت میں لفظ ’’الرَّحْمٰنُ‘‘ کی حکمت یہ ہے کہ گمراہوں کو مہلت دینا اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کا تقاضا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر کفر سے توبہ کر لیں۔ قرآن مجید میں کئی آیات میں یہ بات مختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۷۸)، انعام (۴۴)، سبا (۱۷) اور قلم (۴۴، ۴۵) اس تفسیر کی صورت میں ’’ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ ‘‘ میں امر بمعنی خبر ہے۔ یہ معنی زیادہ قوی ہے، کیونکہ اس کے بعد والی آیت : ﴿ وَ يَزِيْدُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا هُدًى ﴾ میں فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کی گمراہی میں مہلت دیتا ہے اسی طرح ہدایت والوں کی ہدایت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔