سورة مريم - آیت 63

تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے بناتے ہیں جو متقی ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ....: یعنی جنت کا وارث وہ ہو گا جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور کفر و شرک اور گناہوں سے بہت بچنے والا ہو۔ اس آیت میں متقی لوگوں کو جنت کا وارث بنانے کا ذکر ہے۔ یہی بات سورۂ مومنون (۱ تا ۱۰) اور اعراف (۴۲، ۴۳) میں بیان کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہل جنت کس کے وارث بنیں گے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ان کے باپ آدم کو جنت ملی تھی اور اولاد اپنے باپ کی جائداد کی وارث ہوتی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم دونوںمیں بنی آدم کی جگہ بنائی ہے۔ اہل جہنم اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جنت میں اپنی جگہ سے محروم ہو جائیں گے تو اس کے وارث جنتی ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَرٰی مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ فَيَقُوْلُ لَوْلاَ أَنَّ اللّٰهَ هَدَانِيْ فَيَكُوْنُ لَهُ شُكْرٌ، وَ كُلُّ أَهْلِ النَّارِ يَرٰی مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ فَيَقُوْلُ لَوْلاَ أَنَّ اللّٰهَ هَدَانِيْ فَيَكُوْنُ عَلَيْهِ حَسْرَةٌ )) [صحیح الجامع : ۴۵۱۴۔ مسند أحمد :2؍512، ح : ۱۰۶۶۳۔ مستدرک حاکم :2؍436، ح : ۳۶۲۹، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’تمام اہل جنت آگ میں اپنا ٹھکانا دیکھیں گے تو کہیں گے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے مجھے ہدایت دی (تو میں یہاں ہوتا)، تو وہ بہت شکر کرے گا اور تمام اہل نار جنت میں اپنی جگہ دیکھیں گے تو کہیں گے، اگر ایسا ہوتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت دے دیتا (تو میں یہاں ہوتا)، تو اس کے لیے بہت حسرت ہوگی۔‘‘ مگر اس جواب میں یہ خیال گزرتا ہے کہ جنتیوں کو صرف جہنمیوں والی جگہ بطور میراث ملے گی، حالانکہ جنت میں ان کا اپنا حصہ بھی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ ﴾ [آل عمران : ۱۳۳ ] ’’(یہ جنت) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ لہٰذا یہ معنی مرجوح ہے۔ اس لیے اکثر مفسرین نے ’’نُوْرِثُ‘‘ کا معنی یہ کیا ہے کہ ہم متقی لوگوں کو ہر طرح سے اس کا مالک بنا دیں گے، وہ کبھی ان سے واپس نہ لی جائے گی، بلکہ وہ میراث کی طرح انھی کی ہو جائے گی، کیونکہ کسی چیز کی ملکیت حاصل ہونے کی سب سے پکی صورت میراث ہے، اس لیے کہ ملکیت حاصل ہونے کی دوسری تمام صورتوں میں ملکیت چھننے کی گنجائش ہوتی ہے، بیع ہو یا ہبہ یا غصب، اس کا مالک اسے واپس لے سکتا ہے، یا بدل سکتا ہے، مگر وارث کو یہ فکر نہیں ہوتی۔ یہ معنی بھی مضبوط ہے۔