وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا
اور ہم نے اسے پہاڑ کی دائیں جانب سے آواز دی اور سرگوشی کرتے ہوئے اسے قریب کرلیا۔
1۔ وَ نَادَيْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ....: طور کا معنی پہاڑ ہے، بعض خاص پہاڑوں کا نام بھی طور ہے، جیسے ایلہ کے قریب صحرائے سینا کے ایک پہاڑ کو طورِ سینا یا طور سینین کہتے ہیں۔ صاحب قاموس نے چند اور مقامات پر واقع پہاڑوں کا بھی ذکر کیا ہے جنھیں طور کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ موسیٰ علیہ السلام کے مدین سے واپس مصر جاتے ہوئے پیش آیا۔ اس کی تفصیل سورۂ طٰہٰ (۹تا۳۶)، نمل (۷ تا ۱۴) اور قصص (۲۹ تا ۳۵) میں موجود ہے۔ ابن کثیر نے سورۂ قصص کی آیت (۳۰) ﴿ نُوْدِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ ﴾ کی تفسیر میں فرمایا : ’’یعنی وادی کی اس جانب سے جو موسیٰ علیہ السلام کے دائیں طرف پہاڑ کے مغربی کنارے سے ملتی تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْ قَضَيْنَا اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ ﴾ [القصص : ۴۴ ] ’’اور اس وقت تو مغربی جانب نہیں تھا جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم کی وحی کی۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے آگ کی طرف رخ قبلہ کی جانب کیا تھا اور انھوں نے پہاڑ کے مغربی حصے کو اپنی دائیں طرف کیا ہوا تھا۔‘‘ آلوسی نے فرمایا : ’’ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَيْمَنِ ‘‘ سے مراد پہاڑ کی وہ جانب ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی دائیں جانب تھی، کیوں کہ خود پہاڑ کا کوئی دایاں ہوتا ہے نہ بایاں۔ ’’ الْاَيْمَنِ ‘‘ ’’ يُمْنٌ ‘‘ سے بھی ہو سکتا ہے جس کا معنی برکت ہے، یعنی اس کی مبارک جانب سے، اس معنی کے لحاظ سے پہاڑ کی مبارک جانب بھی مراد ہو سکتی ہے، مگر پہلا معنی بہتر ہے۔ ’’ نَادَيْنٰهُ ‘‘ (ہم نے اسے آواز دی) آواز دینے سے مراد اس جانب سے اللہ کا کلام ظاہر ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ کی صورت میں سنا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جو سنا تھا اس میں نہ حرف تھے، نہ آواز تھی۔ انھوں نے صرف کانوں سے نہیں بلکہ تمام اعضاء کے ساتھ سنا تھا، جس سے انھیں یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اسی لیے کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہم نے اسے طور کی مبارک جانب سے آتے ہوئے آواز دی، مگر یہ بات عقل کی دسترس سے باہر ہے اور احادیث کے دلائل اس کے صاف خلاف ہیں۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا آواز دینا اور کلام کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر اس کے کلام کے بھی منکر ہیں، اس لیے وہ نہ اس میں حروف مانتے ہیں، نہ آواز اور نہ اس کا کانوں سے سنا جانا۔ مگر الفاظ اور آواز سے خالی چیز کو کلام کہنا جس طرح عقل سے بعید ہے اسی طرح قرآن و حدیث کے بھی صریح خلاف ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۴۳)، کہف (۱۰۹) اور توبہ (۶)۔ 2۔ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا : ’’ نَجِيًّا ‘‘ ’’فَعِيْلٌ‘‘ بمعنی ’’مُفَاعِلٌ‘‘ ہے، جیسے ’’جَلِيْسٌ‘‘ بمعنی ’’مُجَالِسٌ‘‘ اور ’’نَدِيْمٌ‘‘ بمعنی ’’مُنَادِمٌ‘‘ ہے۔ ’’مُنَاجَاةٌ‘‘ ایک دوسرے سے چھپی آواز میں بات کرنا، سرگوشی کرنا، یعنی ہم نے اسے سرگوشی کرتے ہوئے قریب کر لیا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ان سے کلام ہوا، بیچ میں فرشتہ نہ تھا۔‘‘ (موضح) اللہ تعالیٰ نے جس طرح واضح الفاظ میں موسیٰ علیہ السلام سے خود کلام کرنے کا ذکر فرمایا ہے کسی اور کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا۔