وَوَهَبْنَا لَهُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا
اور ہم نے انھیں اپنی رحمت سے حصہ عطا کیا اور انھیں سچی ناموری عطا کی، بہت اونچی۔
1۔ وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا : ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’حصہ‘‘ کیا ہے۔ اس رحمت سے مراد نبوت اور دینی و دنیوی بے شمار برکتیں ہیں، مثلاً اموال و اولاد کی کثرت، ارض مقدس کی خلافت، نسل در نسل نبوت و امامت وغیرہ۔ 2۔ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا : ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس کی تفسیر ’’ثَنَاءٌ حَسَنٌ‘‘ (اچھی شہرت) فرمائی۔ [ طبری بسند ثابت ] ’’ لِسَانَ ‘‘ بول کر وہ چیز مراد لی ہے جو زبان کے ساتھ ہوتی ہے، یعنی شہرت و ناموری، جیسا کہ ’’يَدٌ‘‘ بول کر احسان مراد لیتے ہیں، کیونکہ وہ ہاتھ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ’’ لِسَانَ صِدْقٍ ‘‘ سچی ناموری کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعی اس ناموری اور شہرت کے حق دار تھے اور ان کا عمل اس شہرت کو سچا ثابت کرتا تھا، اس لیے ان کا ذکر خیر ہمیشہ کے لیے لوگوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ چنانچہ یہودی، عیسائی اور مسلمان سب ان کی تعظیم کرتے ہیں اور نماز میں درود ابراہیمی بھی ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی مقبولیت ہی کا ثمر ہے۔ دیکھیے سورۂ شعراء (۸۴)۔