مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ
کبھی اللہ کے لائق نہ تھا کہ وہ کوئی بھی اولاد بنائے، وہ پاک ہے، جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے کہ ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوجاتا ہے۔
1۔ مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ....: ’’ كَانَ ‘‘ استمرار کے لیے ہے، یعنی اللہ کے لائق نہ پہلے کبھی تھا اور نہ ہے کہ وہ کوئی بھی اولاد بنائے۔ ’’ وَلَدٍ ‘‘ نکرہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ تھا ’’کوئی اولاد‘‘ لیکن اس سے پہلے ’’ مِنْ ‘‘ آنے کی وجہ سے عموم اور زیادہ ہو گیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’کہ وہ کوئی بھی اولاد بنائے‘‘ لڑکا یا لڑکی، کسی فرشتے کو یا جن کو، یا انسان کو یا کسی اور مخلوق کو۔ 2۔ يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ : یعنی جسے یہ قدرت حاصل ہو کہ کلمہ ’’ كُنْ ‘‘ سے ہر چیز وجود میں لا سکتا ہو اسے بیٹا بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ بیٹے کی ضرورت تو اسے ہے جو بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے محتاج ہو، یا فنا ہونے والا ہو اور اسے وارث کی ضرورت ہو۔ مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت۔ پھر جب وہ آدم کو ’’كُنْ‘‘ کہہ کر پیدا کر سکتا ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آدم علیہ السلام کی طرح ’’ كُنْ ‘‘ کہہ کر پیدا کر سکتا ہے، دیکھیے سورۂ آل عمران (۵۹، ۶۰)۔