وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
اور وہ تجھ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں، پھر جب وہ غسل کرلیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔
1۔ ”الْمَحِيْضِ“ ”حَاضَتِ الْمَرْأَۃُ تَحِيْضُ“ (ض) سے اسم مصدر ہے، اس کا اصل معنی ’’بہنا ‘‘ہے۔ مراد عورت کا وہ خون ہے جو ہر ماہ عادت کے مطابق آتا ہے۔ عادت کے خلاف جو خون آئے وہ استحاضہ (بیماری) ہے۔ ”اَذًى“ کا لفظ تکلیف، بیماری اور گندگی تینوں معنوں میں آتا ہے۔ نکرہ ہونے کی وجہ سے ’’ایک طرح کی گندگی‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کا گندگی ہونا تو ظاہر ہے، طبی حیثیت سے بھی عورت ان دنوں صحت کی نسبت بیماری کے زیادہ قریب ہوتی ہے اور اس حالت میں اس سے جماع خاوند اور بیوی دونوں کے لیے بیماری کا باعث ہو سکتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہود میں جب کسی عورت کو حیض آتا تو وہ نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ گھر میں ان کے ساتھ اکٹھے رہتے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے (اس بارے میں) پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:﴿وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ هُوَ اَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِي الْمَحِيْضِ﴾ [ البقرۃ:۲۲۲ ] تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’جماع کے علاوہ سب کچھ کرو۔‘‘ [مسلم، الحیض،باب جواز غسل الحائض:۳۰۲ ] احادیث میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ اس حالت میں خاوند کے لیے عورت کا بوسہ لینا، اس سے چمٹنا، الغرض سب کچھ سوائے جماع کے جائز ہے۔ وہ اس حالت میں گھر میں رہ کر کھانا پکانا، بچے کو دودھ پلانا، غرض گھر کا ہر کام کر سکتی ہے، البتہ مسجد میں جانا اور نماز، روزہ اس کے لیے جائز نہیں۔ 2۔ حَتّٰى يَطْهُرْنَ:یہ باب ”نَصَرَ“ اور”كَرُمَ“سے ہے، بمعنی پاک ہو جائیں ”تَطَهَّرْنَ“ باب تفعل ہے، جس میں مبالغہ ہے، یعنی ’’خوب پاک ہو جائیں ‘‘ غسل کر لیں۔ ”حَتّٰى يَطْهُرْنَ“ سے معلوم ہوا کہ حیض سے پاک ہونے تک جماع منع ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے جماع کی اجازت ”تَطَهَّرْنَ“ (یعنی غسل کرنے) کے بعد دی ہے۔ اکثر اہل علم یہی فرماتے ہیں کہ غسل سے پہلے جماع جائز نہیں۔ طبری نے اس پر علماء کا اجماع ذکر کیا ہے، البتہ بعض علماء پاک ہونے کے بعد عورت کے شرم گاہ کو دھو لینے کے بعد جماع جائز سمجھتے ہیں، مگر پہلی بات میں زیادہ احتیاط ہے۔ 3۔ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ:”فَاْتُوْهُنَّ“ کا مطلب یہ نہیں کہ ضرور ہی ان سے صحبت کرو، بلکہ منع کرنے کے بعد امر آئے تو اجازت مراد ہوتی ہے، جیسے:﴿ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ﴾ [المائدۃ:۲ ] ’’جب احرام کھول دو تو شکار کرو۔‘‘ ’’جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ سے (یعنی شرم گاہ میں جماع سے) تمہیں منع کیا تھا، اب اس جگہ سے عورت کے پاس جانے کی اجازت ہے۔ دبر کی اجازت نہ پہلے تھی نہ اب ہے، یہ تو سراسر گندگی ہے اور ”الْمُتَطَهِّرِيْنَ“ ( بہت پاک رہنے والوں) سے اس کی کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی طرح حیض کی حالت میں جانا بھی ”الْمُتَطَهِّرِيْنَ“ کے لائق نہیں۔ اگر کوئی اس حالت میں چلا گیا تو بہت توبہ کرنے سے اللہ کی محبت کا پھر حق دار بن سکتا ہے۔ ”التَّوَّابِيْنَ“ اور ”الْمُتَطَهِّرِيْنَ“ کی یہ تفسیر آیت کی مناسبت سے ہے، ورنہ لفظ عام ہیں، جن میں ہر گناہ سے بہت توبہ اور ہر نجاست سے بہت اجتناب اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ 4۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’جو شخص حیض کی حالت میں بیوی کے پاس جائے وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔‘‘ [ أبو داؤد، النکاح، باب فی کفارۃ من أتی حائضًا:۲۱۶۸۔ نسائی:۲۹۰۔ ترمذی:۱۳۶۔ ابن ماجہ:۶۴۰ ] شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرنے کا اختیار ہے۔