فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا
پس وہ اس (لڑکے) کے ساتھ حاملہ ہوگئی تو اسے لے کر ایک دور جگہ میں الگ چلی گئی۔
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِيًّا: ’’ قَصِيًّا ‘‘ ’’قَصِيَ يَقْصَي قُصُوًّا‘‘ ’’رَضِيَ يَرْضَي‘‘ کی طرح ناقص واوی ’’عَلِمَ يَعْلَمُ‘‘ سے ہے۔ ’’ قَصِيًّا أَيْ بَعِيْدًا ‘‘ یعنی دور۔ ’’ فَحَمَلَتْهُ ‘‘ جبریل علیہ السلام کے یہ کہنے اور ان میں روح پھونکنے کے بعد وہ حاملہ ہو گئیں۔ روح پھونکنے کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورۂ انبیاء (۹۱) اور سورۂ تحریم (۱۲) حاملہ ہونے کے بعد فطری تقاضے کے مطابق حمل کی مدت پوری کرنے کے دوران لوگوں کے طعن و ملامت سے بچنے کے لیے وہ بیت المقدس سے دور ایک مقام پر منتقل ہو گئیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے وہب کا قول ذکر کیا ہے کہ وہ بیت اللحم میں منتقل ہوئیں، جو بیت المقدس سے آٹھ میل دور تھا اور وہیں عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ نصاریٰ اس میں کوئی شک نہیں کرتے۔ مگر وہب کا قول اسرائیلیات ہی سے ماخوذ ہے، نہ اس کے صحیح ہونے کا یقین ہو سکتا ہے اور نہ نصاریٰ کے کہنے کا۔ البتہ اکثر علماء کا کہنا یہی ہے۔حمل کے کتنا عرصہ بعد عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی؟ بعض مفسرین نے فرمایا کہ بس حمل ہونے کی دیر تھی کہ اس کے ساتھ ہی ولادت ہو گئی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں مگر یہ بات کسی قابل اعتماد ذریعے سے نہیں آئی اور وحی الٰہی کے بغیر کسی واقعہ کے متعلق سیکڑوں برس بعد اگر کوئی شخص سنی سنائی بات بیان کرے تو خواہ وہ کتنا عظیم ہو وہ بات یقین کی ٹھنڈک نہیں پہنچا سکتی۔ اس لیے ظاہر یہی ہے کہ حمل کی عام مدت پوری ہوئی اور جمہور مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔