وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا
اور کتاب میں مریم کا ذکر کر، جب وہ اپنے گھروالوں سے ایک جگہ میں الگ ہوئی جو مشرق کی جانب تھی۔
1۔ وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مَرْيَمَ : زکریا اور مریم علیھما السلام کے واقعات میں مناسبت کی وجہ سے ان کا ذکر سورۂ آل عمران (۳۵ تا ۴۰)، سورۂ انبیاء (۳۹ تا ۴۱) اور یہاں اکٹھا آیا ہے، کیونکہ ان میں کئی طرح سے مناسبت ہے۔ مریم علیھا السلام کی کرامت بے موسم پھل دیکھ کر زکریا علیہ السلام کے دل میں بے وقت اولاد کی خواہش اور امید پیدا ہوئی۔ پھر زکریا علیہ السلام کو خلاف عادت بیٹا عطا ہوا اور مریم علیھا السلام کے ہاں ان سے بھی بڑھ کر خلاف عادت بیٹا پیدا ہوا۔ دونوں قصے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی دلیل ہیں۔ 2۔ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا : ’’نَبَذَ‘‘ کا معنی پھینکنا ہے۔ ’’ انْتَبَذَتْ ‘‘ الگ ہوئی، یعنی بالکل الگ ہو گئی، گویا اس نے اپنے آپ کو گھر والوں سے دور پھینک دیا۔ یاد رہے کہ مریم علیھا السلام کو ان کی والدہ نے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کیا تھا اور وہ اپنے بہنوئی زکریا علیہ السلام کی کفالت میں وہاں مصروف عبادت رہتی تھیں۔ حدیثِ معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یحییٰ اور عیسیٰ علیھما السلام کو خالہ زاد بھائی فرمایا۔ مریم علیھا السلام کی نیکی، پاکیزگی اور شرافت ضرب المثل تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيْدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ )) [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قولہ تعالٰی : ﴿ وضرب اللّٰہ مثلا .....﴾ : ۳۴۱۱۔ مسلم :۲۴۳۱ ] ’’مردوں میں بہت سے کامل ہوئے ہیں اور عورتوں میں سے کامل نہیں ہوئیں مگر فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اس طرح ہے جیسے ثرید (گوشت کے سالن میں بھگوئی ہوئی روٹی) کی فضیلت تمام کھانوں پر۔‘‘ علیحدہ ہونے کا مطلب بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ایام آنے کی وجہ سے الگ ہوئیں اور بعض نے فرمایا کہ عبادت کے لیے مکمل تنہائی کی خاطر الگ ہوئیں، بظاہر ان دونوں میں سے کوئی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وجہ بیان نہیں فرمائی۔ اصل حقیقت وہی بہتر جانتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ نصاریٰ نے مشرق کو اسی لیے قبلہ بنا لیا کہ مریم علیھا السلام کے ہاں مسیح علیہ السلام کی پیدائش بیت المقدس کی مشرقی جانب میں ہوئی۔ [ طبري و صححہ ابن بشیر : ۲۳۷۵۷ ]