قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا
کہہ دے اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقیناً سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔
1۔ قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا....: کیونکہ سمندر مخلوق ہے جس کی حد اور انتہا ہے، جب کہ اللہ کا کلام اس کی صفت ہے، مخلوق نہیں، نہ اللہ کی ذات کی کوئی انتہا ہے نہ اس کی صفات کی۔ اگر اللہ کے کلمات لکھنے کے لیے سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں، پھر اتنی سیاہی ہم اور لے آئیں، بلکہ مزید سات سمندر سیاہی بن جائیں تو سب ختم ہو جائیں گے، مگر اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ (دیکھیے لقمان : ۲۷) کیونکہ محدود چیز لا متناہی اور غیر محدود کا احاطہ کبھی نہیں کر سکتی۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اسی طرح اس کی دوسری صفات کی طرح صفت کلام بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ جب چاہے، جس سے چاہے، جو چاہے کلام کرتا ہے، اس کے کلام کی کوئی انتہا نہیں، وہ ہمیشہ کلام پر قادر رہے گا، جیسے رسولوں کے متعلق فرمایا : ﴿ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ ﴾ [البقرۃ : ۲۵۳ ] ’’ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام فرمایا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا ﴾ [النساء : ۱۶۴] ’’اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ﴾ [التوبۃ : ۶ ] ’’اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔‘‘ اتنی واضح آیات کے باوجود مسلمانوں کے بہت سے گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کے منکر ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا کلام وہ معانی ہیں جو اس کی ذات میں ہیں۔ وہ بول نہیں سکتا، نہ اس کے الفاظ ہیں نہ آواز۔ الفاظ اور آواز کو اس نے پیدا کیا ہے، اس لیے یہ قرآن بھی مخلوق ہے، اللہ کا کلام نہیں۔ صرف اس کا مفہوم و معنی اللہ کی صفت ہے۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے کہا کہ نماز میں قرآنی آیت کا مفہوم عربی الفاظ کے بجائے فارسی، اردو یا کسی اور زبان میں ادا کر دیا جائے تو نماز ہو جائے گی، کیونکہ قرآن کی تلاوت ہو گئی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق قرآن عربی ہے۔ دیکھیے سورۂ یوسف (۳) وغیرہ۔ امام اہل السنہ احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے انھی گمراہ فرقوں کی طرف سے بے شمار عذاب برداشت کیے، مگر قرآن کو اللہ کا کلام کہتے رہے، اسے مخلوق نہیں مانا اور امت کو صراط مستقیم سے ہٹنے نہیں دیا۔ بھلا کوئی شخص اپنے آپ کو تو کلام پر قادر سمجھے اور اپنے لیے گونگا ہونے کو عیب جانے، حالانکہ گونگے کے دل میں بھی معانی موجود ہوتے ہیں، مگر تمام صفات حسنہ کے مالک کے متعلق کہے کہ وہ نہ بولتا ہے نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، نہ کوئی اس کا کلام سن سکتا ہے۔ ایسا عاجز رب انھی کو مبارک ہو قرآن و حدیث میں مذکور ہمارا رب تو بولتا بھی ہے، سنتا بھی اور وہ تمام صفات کمال کا مالک ہے۔ بعض پیغمبروں نے خود اس کا کلام سنا، بعض کو فرشتے کے ذریعے سے پہنچا، رسولوں کی معرفت آیا ہوا کلام ہم پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی۔ [ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی نِعَمِہِ الشَّامِلَۃِ وَ آلَائِہِ الْکَامِلَۃِ ] 3۔ یہاں انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ان عقل پرستوں نے صفات کا انکار کیوں کیا؟ پھر قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہنے پر اتنا اصرار کیوں کیا کہ جو بھی قرآن کو مخلوق نہ کہے وہ ہر قسم کے سرکاری عہدے سے معزول ہے، حتیٰ کہ وہ نہ کسی مسجد کا خطیب ہو سکتا ہے نہ امام، نہ اپنے طور پر کسی مسجد میں پڑھا سکتا ہے، نہ درس دے سکتا ہے اور اہل السنہ، خصوصاً ان کے امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے اس کے انکار میں اتنی شدت کیوں کی اور اتنا عذاب کیوں جھیلا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ خیر القرون گزرنے کے بعد عملی کمزوریوں کی وجہ سے طبائع قرآن و سنت پر عمل کی پابندیوں کو بوجھ سمجھنے لگیں، حکمرانوں کی مطلق العنانی میں بھی یہ دونوں چیزیں رکاوٹ تھیں، جیسا کہ ہم آج کل کے اکثر حکمرانوں اور ان کی اسلامی نظریاتی کونسلوں کے علماء کو دیکھتے ہیں۔ چنانچہ علمائے سوء نے عقل کا نام لے کر آزادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو راستے سے ہٹا دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔ انھی دنوں مامون الرشید نے یونانی کتابوں کے تراجم کروائے تھے۔ دنیاوی معاملات میں اپنے پیش رو لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں، مگر ساتھ ہی یونانی فلسفے کا بھی ترجمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی ان کے عقائد ان لوگوں پر اثر انداز ہوئے۔ چنانچہ معتزلہ، یعنی عقل پرستوں نے ان کے کچھ بنیادی اصول تسلیم کر لیے، مثلاً ایک سے ایک ہی چیز کا صدور ہو سکتا ہے۔ محلِ حوادث حادث ہوتا ہے، یعنی جس سے کوئی نئی چیز وجود میں آئے وہ ذات قدیم، یعنی اللہ تعالیٰ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نہ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے، نہ بولتا ہے، نہ حرکت کر سکتا ہے، نہ وہ عرش پر ہے، نہ آسمان پر اترتا ہے، نہ قیامت کے دن زمین پر آئے گا، کیونکہ یہ سب حوادث ہیں۔ یہ عقائد قرآن و حدیث کا صاف انکار تھے، کیونکہ قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر وقت نئی سے نئی حالت میں ہے، فرمایا : ﴿ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ﴾ [الرحمٰن : ۲۹ ] ’’ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔‘‘ وہ سمیع ہے، بصیر ہے، قیامت کے دن زمین پر آئے گا وغیرہ۔ ان لوگوں کے مقابلے میں مسلم علماء میں سے ایک تو متکلمین اٹھے جنھوں نے ان کا جواب دیا، مگر بدقسمتی سے ان کے اصول مان بیٹھے، چنانچہ انھوں نے فلاسفہ کے اصول بچانے کے لیے قرآن و حدیث کی تاویل بلکہ تحریف کی۔ کلام بھی چونکہ حادث ہے، یعنی ہر لفظ پہلے کے بعد نئے سے نیا آتا ہے اور ان کے بقول اللہ تعالیٰ ایسی چیزوں کا محل نہیں، لہٰذا انھوں نے اللہ کے کلام کا انکار کرنے کے لیے تاویل کا سہارا لیا اور کہا کہ قرآن کے معانی قدیم ہیں، وہ تو اللہ کی ذات میں ہیں، مگر الفاظ مخلوق ہیں، اصل مفہوم جس زبان اور جن الفاظ میں بھی ادا ہو جائے وہی قرآن ہے۔ حدیث سے وہ پہلے ہی یہ کہہ کر جان چھڑا چکے تھے کہ حدیث سے قرآن پر اضافہ نہیں ہو سکتا اور یہ کہ ان کے کہنے کے مطابق غیر فقیہ صحابی کی روایت کردہ حدیث قیاس کے خلاف ہو تو رد کر دی جائے گی۔ رہا قرآن تو اس میں من مانی تبدیلی کے لیے اس کے الفاظ کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کر دیا، صرف معنی و مفہوم کو قرآن قرار دیا۔ یہود و نصاریٰ میں بھی تحریف کا دروازہ یہیں سے کھلا کہ تورات و انجیل کے تراجم کو اللہ کا کلام کہہ دیا گیا، حتیٰ کہ اصل زبان والی کتابیں دنیا سے مفقود ہو گئیں۔ تراجم میں تبدیلی کچھ مشکل نہ تھی، لہٰذا اب وہ کتب اس قابل ہی نہیں رہیں کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے۔ امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ ان کے عقلی ڈھکوسلوں کے مقابلے میں کہتے تھے کہ کوئی آیت یا حدیث پڑھو جس میں ہو کہ قرآن مخلوق ہے، ہم مان لیں گے۔ امام صاحب اسی پر قائم رہے۔ قرآن کے الفاظ ہی کو اللہ کا کلام کہنے پر ڈٹے رہے، جس کے نتیجے میں قرآن محفوظ رہا اور حدیث بھی حجت رہی۔ یہ ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾ [الحجر : ۹ ] کے وعدے کی تکمیل تھی۔ ان لوگوں نے مسلمانوں سے ان کی معنوی قوت ختم کرنے کے لیے ایمان کو بھی صرف دل کا فعل قرار دیا، اقرار کو بھی صرف مسلمان تسلیم ہونے کے لیے ضروری قرار دیا، اقرار نہ بھی کرے تو لوگوں کے نزدیک نہ سہی اللہ کے ہاں پکا مومن ہے۔ اقرار کر لے، عمل نہ بھی کرے تو اللہ کے ہاں اور مسلمانوں کے ہاں پکا مومن ہے۔ یہ اہل سنت محدثین ہی تھے جنھوں نے اسلام پر ان حملوں کا دفاع کیا اور جو سختی بھی ان پر گزری اسے برداشت کیا۔ کتنے ہی اس امتحان میں ناکام ہوئے، کتنے شہادت پا کر سرخرو ہوئے۔ اب بھی قرآن و حدیث پر قائم رہنے والوں کا ایسے لوگوں سے مقابلہ جاری ہے جو قرآن کے الفاظ کو اللہ کا کلام نہیں مانتے، اللہ تعالیٰ کی صفات، سننے، دیکھنے، رحم کرنے، اترنے، چڑھنے، عرش پر ہونے کو نہیں مانتے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام کے ٹھیکیدار بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ قرآن و سنت پر قائم علماء صریح دلائل سے ان لوگوں کے عقائد کا باطل ہونا بیان کرتے رہتے ہیں اور قرآن و حدیث پر ذرہ برابر آنچ آنے دیتے ہیں نہ ان میں کوئی لفظی یا معنوی تحریف برداشت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَرِثُ هٰذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُوْلُهُ يَنْفُوْنَ عَنْهُ تَأْوِيْلَ الْجَاهِلِيْنَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِيْنَ وَ تَحْرِيْفَ الْغَالِيْنَ )) [السنن الکبریٰ للبیھقی :1؍209، ح : ۲۱۴۳۹ ] ’’قرآن و حدیث کے اس علم کے وارث بعد میں آنے والے تمام لوگوں میں سے ان کے وہ عادل لوگ ہوں گے جو اس سے جاہلوں کی تاویل، باطل پرستوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ اور غلو کرنے والوں کی تحریف کو دور کریں گے۔‘‘ [ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ]