أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا
تو کیا جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے گمان کرلیا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو حمایتی بنا لیں گے۔ بے شک ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے بطور مہمانی تیار کر رکھا ہے۔
1۔ اَفَحَسِبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا....: سورت کی ابتدا اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد بتانے والوں کو ڈرانے اور اصحابِ کہف کے اعلانِ توحید کے ذکر سے ہوئی تھی، آخر میں پھر وہی بات دہرائی، یعنی کیا ان کفار نے میرے خاص بندوں، جیسے مسیح، عزیر، روح القدس اور فرشتوں وغیرہ کو اپنا معبود بنا کر یہ سمجھ رکھا ہے کہ انھیں میرے مقابلے میں لا کھڑا کریں گے اور اپنا حمایتی بنا لیں گے۔ استفہام انکاری ہے، یعنی یہ گمان سراسر غلط ہے، بلکہ وہ سب ان کی عبادت سے بے زاری کا اعلان کریں گے اور ان کے مقابل مدعی بن کر کھڑے ہوں گے۔ دیکھیے سورۂ مریم (۸۲) اور احقاف (۵، ۶) اگرچہ ’’ عِبَادِيْ ‘‘ سے نیک و بد سبھی مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ سب اللہ کے بندے ہیں (دیکھیے مریم : ۹۳) مگر پہلا معنی زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ’’میرے بندے‘‘ کہہ کر اپنا بنا لینے میں جو عزت افزائی ہے وہ خاص بندوں ہی کا حصہ ہے ۔ 2۔ اِنَّا اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ نُزُلًا : ’’ نُزُلًا ‘‘ کا معنی وہ چیزیں ہیں جو مہمان نوازی کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ جہنم بطور مہمانی کفار کو مذاق ہے۔ ’’ نُزُلًا ‘‘ کا ایک معنی منزل بھی ہے، یعنی ہم نے جہنم کو کافروں کی منزل کے طور پر تیار کررکھا ہے۔