قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَىٰ رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا
اس نے کہا جو شخص تو ظلم کرے گا سو ہم اسے جلدی سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے عذاب دے گا، بہت برا عذاب۔
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ....: ذوالقرنین نے اپنی فتح و قوت کے نشے میں آکر سب کو تہ تیغ کرنے یا غلام بنانے کے بجائے ہر ایک سے وہ سلوک کرنے کا اظہار کیا جس کے وہ لائق تھا۔ ’’ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ ‘‘ (جو شخص ظلم کرے گا) سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۸۲) اس کا ایک قرینہ یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں ایمان اور عمل صالح والوں کا ذکر ہے، یعنی کفار و مشرکین میں سے ہر ایک سے اس کے حسب حال سخت سزا کا سلوک کروں گا، جنگ پر آمادہ لوگوں کو قتل اور قید کروں گا اور غلام بناؤں گا۔ دوسروں سے جزیہ لے کر غلام بنا کر رکھوں گا، پھر قیامت کے دن وہ اپنے کفر وشرک کی بہت بری سزا پائیں گے۔ رہے ایمان اور عمل صالح والے تو ان کے لیے بدلے میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور ہم ان کے ساتھ اپنے تمام معاملات میں آسانی کا سلوک کریں گے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی جنگوں میں اسی پر عمل فرمایا۔