سورة الكهف - آیت 85

فَأَتْبَعَ سَبَبًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو وہ کچھ سامان ساتھ لے کر چلا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاَتْبَعَ سَبَبًا : ’’ تَبِعَ ‘‘ ساتھ گیا، ’’أَتْبَعَ‘‘ (افعال) ساتھ لے گیا، یعنی اس نے اپنے اقتدار کو مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے اور پوری زمین پر اللہ کا کلمہ غالب کرنے کے لیے ایک لمبے سفر کی تیاری کی اور اس کے لیے درکار افواج، اسلحہ اور سامان سفر ساتھ لے کر مغرب کی طرف جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکل پڑا۔ راستے میں ہر مقابل کو زیر کرتا ہوا اور ہر رکاوٹ کو روندتا ہوا زمین کے اس حصے تک جا پہنچا جہاں تک اس وقت آبادی موجود تھی اور سفر ممکن تھا، اس سے آگے سمندر سے پہلے وسیع و عریض دلدلی علاقہ تھا، جس میں نہ خشکی کے ذرائع سے سفر ہو سکتا تھا، نہ بحری ذرائع سے۔ وہاں اس نے سورج غروب ہونے کا مشاہدہ کیا تو وہ اسے ایک کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہوا نظر آیا، کیونکہ آگے سمندر کے اثر سے اور چشموں کی کثرت سے زمین دلدل اور کیچڑ بنی ہوئی تھی۔ جس طرح سمندر، صحرا یا میدان میں سے جو چیز بھی سامنے ہو سورج اسی میں غروب ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ بعض لوگوں نے جو اعتراض کیا ہے کہ قرآن کے بیان کے مطابق سورج کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے، انھوں نے غور ہی نہیں کیا کہ قرآن نے ذوالقرنین کا مشاہدہ بیان فرمایا ہے اور اب بھی دیکھنے والے کو ایسے ہی نظر آئے گا۔ اصل حقیقت دوسری جگہ بیان فرمائی ہے، فرمایا : ﴿ وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ﴾ [یٰس : ۳۸ ] ’’اور سورج اپنے ایک ٹھکانے کے لیے چل رہا ہے (جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے)۔‘‘ قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ....: یعنی مغرب کی طرف آبادی کے آخری حصے میں اس نے ایک قوم کو پایا تو ہم نے کہا کہ اے ذو القرنین! تمھیں اختیار ہے، چاہو تو انھیں قتل، قید یا غلامی کی صورت میں یا جس طرح چاہو سزا دو، یا ان کے بارے میں کوئی نیک سلوک اختیار کرو۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’ قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ ‘‘ (ہم نے کہا اے ذو القرنین!) کو بعض مفسرین نے ذوالقرنین کے نبی ہونے کی دلیل قرار دیا ہے، مگر یہ الفاظ اس مفہوم کے لیے صریح نہیں ہیں، کیونکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ طالوت کی طرح کوئی نبی ہو، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اسے یہ پیغام دیا ہو، جیسے فرمایا : ﴿ فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا ﴾ [البقرۃ : ۷۳ ] ’’تو ہم نے کہا اس پر اس کا کوئی ٹکڑا مارو۔‘‘ یا اس قوم کو مکمل طور پر ذوالقرنین کے اختیار میں دینے کی حالت کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہو، اس لیے اکثر سلف اس کے نبی ہونے کے قائل نہیں۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اللہ کا نیک، مخلص اور مجاہد بندہ تھا، جس نے اپنے آرام کو چھوڑ کر ساری زندگی غلبۂ اسلام کے لیے جہاد میں صرف کر دی۔