سورة البقرة - آیت 216

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تم پر لڑنا لکھ دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمھیں ناپسند ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ”كُرْهٌ “ یہ مصدر بمعنی ”كَرَاهِيَةٌ“ ہے۔ مصدر کو اسم مفعول ”مَكْرُوْهٌ“ کی جگہ مبالغہ کے لیے لایا گیا ہے، جیسا کہ ”زَيْدٌ عَدْلٌ“ ’’زید سراپا عدل ہے۔‘‘ تو یہاں ”كُرْهٌ “ کا معنی ہو گا ’’سراسر ناپسند ہے۔‘‘ ”كُتِبَ“ یہ وہی ”كُتِبَ“ ہے جو اس سے پہلے قصاص، وصیت اور صیام کے لیے آیا ہے۔ 2۔ پچھلی آیت میں مال خرچ کرنے کی ترغیب کے بعد اب جان خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ ”الْقِتَالُ“ سے ہر لڑائی مراد نہیں، بلکہ عہد کا الف لام ہونے کی وجہ سے خاص یعنی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لڑائی ہے۔ 3۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ وہ جہاد کریں اور دشمنوں سے اسلام کا دفاع کریں۔ امام زہری نے فرمایا، جہاد ہر ایک پر واجب ہے، خواہ لڑائی میں نکلے یا بیٹھا رہے، بیٹھنے والوں پر لازم ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں، جب ان سے فریاد کی جائے فریاد کو پہنچیں، جب انھیں میدان میں بلایا جائے نکل کھڑے ہوں۔ (ابن کثیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اس نے نہ جنگ کی اور نہ اپنے نفس کے ساتھ جنگ کی بات کی تو وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔‘‘ [ مسلم، الإمارۃ، باب ذم من مات:۱۹۱۰، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ] 4۔ جہاد یعنی اللہ کا دین غالب کرنے کے لیے اپنی آخری کوشش کرتے رہنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن نفیر یعنی لڑائی کے لیے نکلنا ہر وقت ہر مسلمان پر فرض نہیں۔ (دیکھیے توبہ:۱۲۲) البتہ تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ تین مواقع پر قتال آدمی پر فرض عین ہو جاتا ہے:(1) جب امام کسی خاص شخص کو یا تمام مسلمانوں کو نکلنے کا حکم دے دے، الایہ کہ امام کسی کو مستثنیٰ کر دے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک میں سب کو نکلنے کا حکم دیا مگر علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے رہنے کا حکم دیا۔ (مسلم:۳۱؍۲۴۰۴) اس کی دلیل سورۂ توبہ کی آیات (۳۸، ۳۹) ہیں۔ (2) جب کفار مسلمانوں کی کسی آبادی پر حملہ کر دیں تو اس کے رہنے والوں پر اس کا دفاع واجب ہے۔ (دیکھیے بقرہ:۱۹۱) اس حد تک کہ اگر ان کے پاس کافی اسلحہ نہ بھی ہو تو پتھروں، اینٹوں، لکڑیوں غرض جو کچھ بھی ملے اس کے ذریعے سے لڑنا فرض ہے۔ اگر دانتوں سے کاٹ کھانے کے سوا کچھ نہ ملے تو دانتوں سے کاٹ کر اپنا دفاع واجب ہے۔ اگر اس آبادی والے دفاع نہ کر سکیں یا سستی کریں تو قریب والی آبادی، پھر اس کے بعد والی پر، حتیٰ کہ تمام دنیا کے اہل اسلام پر لڑنا فرض ہو جاتا ہے، کیونکہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ (3) جب دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو ثابت قدم رہنا واجب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ﴾ [ الأنفال:۱۵] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب تم ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، ایک لشکر کی صورت میں ملو تو ان سے پیٹھیں نہ پھیرو۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:’’جب کسی شخص پر لڑائی فرض عین ہو جائے تو ”فَلَا إِذْنَ “ یعنی اس وقت والدین یا کسی اور سے اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ [ فتح الباری، الجہاد والسیر، باب الجہاد بإذن الأبوین] اس بات پر بھی علماء کا اتفاق ہے کہ اپنے دفاع کی خاطر لڑنے کے لیے کوئی بھی شرط لازم نہیں، نہ امیر کا حکم، نہ والدین کی اجازت اور نہ کوئی اور شرط، جیسا کہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس کی واضح دلیل ہے۔ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ:یعنی وہ تمہیں سراسر ناپسند ہے، کیونکہ اس میں زخمی ہونے، اعضاء کٹنے اور جان جانے کا سامنا ہوتا ہے، جب کہ ہر آدمی فطری طور پر زندہ رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں مال کا خرچ، اہل و عیال اور وطن سے جدائی، سفری صعوبتیں، کھانے پینے اور نیند کی بے ترتیبی، غرض بے شمار مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ وَ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ:قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا:’’معنی یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ تم جہاد میں جو مشقت ہے اسے ناپسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے، اس لیے کہ تم غالب رہو گے، فتح یاب ہو گے، غنیمت حاصل کرو گے اور اجر پاؤ گے اور تم میں سے جو فوت ہو گا وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ تم آرام طلبی اور لڑائی ترک کرنے کو پسند کرو، حالانکہ یہ چیز تمہارے لیے بہت بری ہے، کیونکہ تم مغلوب ہو جاؤ گے اور تمہاری حکومت ختم ہو جائے گی۔‘‘ قرطبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:’’اللہ کا یہ فرمان بالکل صحیح ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، جیسا کہ اندلس میں پیش آیا، انھوں نے جہاد ترک کیا، لڑائی سے بزدلی اختیار کی اور کثرت سے فرار اختیار کیا تو دشمن تمام شہروں پر قابض ہو گیا۔ شہر بھی کیسے کیسے اور کیا کیا اسیری؟ قتل، بچوں اور عورتوں کی غلامی اور عزتوں کی بربادی۔ [إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ] یہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں کا کیا کمایا ہے۔‘‘ (قرطبی) قرطبی کے کئی سو سال پہلے لکھے ہوئے یہ الفاظ آج بھی حقیقت ہیں، جن سے دل درد و غم سے بھرجاتا ہے، اس وقت اندلس سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا تھا، اب مسلمانوں کی آرام طلبی اور ترک جہاد نے کفار کو عراق، افغانستان پر قبضے کا اور باقی تمام مسلمان ممالک میں اپنے احکام چلانے کا موقع دیا ہے اور ہند اور اندلس کی طرح مسلمانوں کا وجود ختم کرنے کے در پے ہیں۔ اب آرام طلبی اور ترک جہاد کا کون سا موقع ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ قتال کی کڑوی دوا کے سوا مسلمانوں کی شفا کی کوئی صورت نہیں۔