قَالَ ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ۚ فَارْتَدَّا عَلَىٰ آثَارِهِمَا قَصَصًا
اس نے کہا یہی ہے جو ہم تلاش کر رہے تھے، سو وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر پیچھا کرتے ہوئے واپس لوٹے۔
فَارْتَدَّا عَلٰى اٰثَارِهِمَا قَصَصًا: یہ واقعہ انبیاء و اولیاء، خصوصاً موسیٰ، یوشع بن نون اور خضر علیہم السلام کے غیب نہ جاننے کی کئی طرح سے دلیل ہے : (1) موسیٰ علیہ السلام کا کہنا کہ مجھ سے زیادہ کوئی عالم نہیں، حالانکہ ان سے زیادہ علم والے موجود تھے۔ (2) اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا۔ (3) موسیٰ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے خضر کا پتا پوچھنا۔ (4) مجمع البحرین اور مچھلی کی نشانی کی ضرورت عالم الغیب کو نہیں ہوتی۔ (5) مچھلی کے نکل جانے کا علم نہ ہونا۔ (6) اگلا سفر، تھکاوٹ کے احساس کی وجہ معلوم نہ ہونا۔ (7) قدموں کے نشانوں کو دیکھتے ہوئے واپسی کی اسے کیا ضرورت ہے جس کی نگاہ سے کچھ اوجھل نہ ہو۔ مزید اگلی آیات میں ملاحظہ فرمائیے۔