سورة الكهف - آیت 57

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ ۚ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۖ وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ فَلَن يَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور اسے بھول گیا جو اس کے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا، بے شک ہم نے ان کے دلوں پر پردے بنا دیے ہیں، اس سے کہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ رکھ دیا ہے اور اگر تو انھیں سیدھی راہ کی طرف بلائے تو اس وقت وہ ہرگز کبھی راہ پر نہ آئیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ....: یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جس جس کے متعلق آیا ہے وہ سب ایسے ہیں کہ ان سے بڑا ظالم کوئی نہیں، مثلاً اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ دیکھیے سورۂ کہف (۱۵)۔ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً....: ’’اَكِنَّةً ‘‘ ’’كِنَانٌ‘‘ کی جمع ہے، پردے۔ ’’ وَقْرًا ‘‘ کا معنی ہے بوجھ، بہرا پن۔ یعنی جب کوئی شخص کسی کے سیدھی طرح سمجھانے سے کوئی اثر نہیں لیتا، بلکہ جانتے بوجھتے ہٹ دھرم اور جھگڑالو بن جاتا ہے، اللہ کی واضح آیات کا مذاق اڑاتا ہے اور اپنے کرتوتوں اور ان کے برے نتائج سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتا تو آخر کار اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور اس کے کان حق بات سننے سے بہرے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص اسے سیدھی راہ کی طرف بلائے بھی تو ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس کی یہ کیفیت اگرچہ اس کے اپنے عمل سے پیدا ہوتی ہے، مگر خالق چونکہ ہر چیز کا اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے اس کیفیت کے پیدا کرنے کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کر دیا ہے۔