سورة الكهف - آیت 46

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میں بہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ ....: اس آیت سے مقصود لوگوں کو نیک اعمال کی طرف توجہ دلانا ہے، تاکہ وہ باقی رہنے والے نیک اعمال کو چھوڑ کر، جو آخرت میں کام آنے والے ہیں، محض دنیا کی زندگی کی زینت والی چیزوں میں مشغول نہ رہیں، کیونکہ دنیا کی زندگی بے ثبات اور عارضی ہے، جیسا کہ پچھلی آیت میں مثال سے واضح فرمایا، تو اس کی چمک دمک اور زینت اس سے بھی زیادہ بے ثبات اور عارضی ہے۔ سو باقی کو فانی پر ترجیح دینا ہی کامیابی ہے۔ اس آیت میں مال اور بیٹوں ہی کا ذکر فرمایا، کیونکہ مال میں انسان کی ملکیت کی ہر چیز آ جاتی ہے، مکان، مویشی اور سونا چاندی وغیرہ۔ دوسری آیات میں ان کی تفصیل اور ان کا فتنہ و آزمائش ہونا تفصیل سے ذکر فرمایا، دیکھیے آل عمران (۱۴، ۱۵)، منافقون (۹) اور تغابن (۱۴، ۱۵)۔ وَ الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ: ان الفاظ میں وہ تمام نیک اعمال آجاتے ہیں جو اللہ کو راضی کرنے والے ہیں اور ان کا اجر قیامت کے دن کے لیے باقی ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ’’الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ ‘‘ کیا ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا : (( لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ )) [ مسند أحمد :1؍71، ح : ۵۱۵ ] ’’ الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ ‘‘ کا ایک خاص مفہوم بھی ہے، یعنی وہ اعمال جن کا ثواب آدمی کو فوت ہونے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ )) [ مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ :۱۶۳۱ ] ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے، ایک وہ صدقہ جو جاری رہنے والا ہو (مثلاً مسجد، شفا خانہ، کنواں وغیرہ)، ایک وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے (مثلاً تدریس، تصنیف، تبلیغ وغیرہ) اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے (یا شاگرد وغیرہ جو دعا کرتے رہیں)۔‘‘ سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، وَإِنْ مَاتَ، جَرَی عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِيْ كَانَ يَعْمَلُهُ، وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ )) [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الرباط في سبیل اللہ عز وجل : ۱۹۱۳۔ ترمذي : ۱۶۶۵۔ نسائي : ۳۱۶۹، ۳۱۷۰ ] ’’اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات کا رباط (سرحد پر دشمن کے مقابلے کے لیے رہنا) ایک ماہ کے روزے اور اس کے قیام سے بہتر ہے، پھر اگر وہ فوت ہو جائے تو اس کا وہ عمل اس کے لیے جاری رکھا جاتا ہے جو وہ کرتا تھا اور اس کے لیے اس کا رزق جاری رکھا جاتا ہے اور آزمائش کرنے والوں (منکر و نکیر) سے امن میں رہتا ہے۔‘‘ مسلم میں ایک دن اور ایک رات کے لفظ ہیں اور اس میں ’’فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ جاریہ، تعلیم دین، دعا کرنے والی اولاد صالح اور جہاد فی سبیل اللہ خاص باقیات صالحات ہیں، جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ....: یعنی ان اعمال کا بدلہ تیرے رب کے ہاں تمام بدلوں سے بہتر ہے اور ان کے اجر کی امید بھی سب امیدوں سے بہتر ہے۔