سورة البقرة - آیت 14

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کی طرف اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مذاق اڑانے والے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ شیاطین سے مراد کفر کے سردار ہیں ، خواہ مشرکین و یہود سے ہوں یا خود ان منافقین سے۔ شیطان ہر سرکش اور فسادی شخص کو کہتے ہیں ۔ شیاطین جنوں اور انسانوں دونوں سے ہوتے ہیں ، فرمایا : ﴿ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ﴾ [ الأنعام : ۱۱۲ ] ’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے۔‘‘ لفظ شیطان ”شَطَنَ شُطُونًا“ سے مشتق ہے جس کے معنی ”بعد“ ( دور ہونا) کے ہیں ، یعنی وہ جو ہر خیر سے دور ہو۔ وَ اِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا: اس سے ظاہر ہے کہ اہلِ ایمان سے ان کی ملاقات سرسری ہوتی ہے، کبھی کسی مجلس میں ، کبھی سر راہ، مگر اپنے شیطانوں کے ساتھ اہتمام کے ساتھ خلوت ہوتی ہے۔ پھر اہلِ ایمان کو تاکید کے کسی لفظ کے بغیر صرف ”اٰمَنَّا“ کہتے ہیں اور اپنے شیاطین کو ”اِنَّا“ اور ”اِنَّمَا“ کی تاکید کے ساتھ اپنے کفر کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم عقیدے میں بلا شک و شبہ تمھارے ساتھی ہیں ، رہا ہمارا ایمان کا اقرار و اظہار تو وہ محض مذاق ہے۔