وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھ جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں ان سے آگے نہ بڑھیں کہ تو دنیا کی زندگی کی زینت چاہتا ہو اور اس شخص کا کہنا مت مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام ہمیشہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ : ’’ وَ لَا تَعْدُ عَيْنٰكَ ‘‘ ’’عَدَا يَعْدُوْ‘‘ (ن) سے نہی کا صیغہ ہے، تجاوز نہ کریں تیری آنکھیں۔ یہ وہی حکم ہے جو اس سے پہلے سورۂ انعام (۵۲) میں گزر چکا ہے۔ مراد وہ کمزور مسلمان ہیں جن کے پاس قریش کے چودھریوں کو بیٹھنا گوارا نہ تھا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ آدمی تھے تو مشرکین نے آپ سے کہا، ان لوگوں کو دور ہٹا دیں کہ یہ لوگ ہم پر جرأت نہ کریں۔ میں تھا، ابن مسعود، قبیلہ ہذیل کا ایک آدمی، بلال اور دو آدمی اور جن کا میں نام نہیں لیتا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں آیا جو اللہ نے چاہا کہ آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں کوئی بات سوچی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ ﴾ [ الأنعام : ۵۲ ] ’’اور ان لوگوں کو دور نہ ہٹا جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں۔‘‘ [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب في فضل سعد بن أبي وقاص رضی اللّٰہ عنہ :46؍2413 ] اس آیت میں بھی آپ کو ایسے لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو روک کر رکھنے کا حکم ہے جن میں مذکورہ صفات پائی جاتی ہیں، کیونکہ ان صفات کی وجہ سے وہی اس قابل ہیں کہ آپ ان کے ساتھ رہیں۔ ان کو چھوڑ کر آپ کی نگاہیں آگے مت بڑھیں کہ آپ دنیا کی زندگی کی زینت کا ارادہ رکھتے ہوں اور ایسے لوگوں کی بات مت مانیں جن کے دلوں کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔