قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا
کہہ دے اللہ زیادہ جاننے والا ہے جتنی مدت وہ رہے، اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی باتیں ہیں، وہ کس قدر دیکھنے والا اور کس قدر سننے والا ہے، نہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔
1۔ قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا ....: یعنی اگر اہل کتاب آپ سے اس مدت میں اختلاف کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا علم تم سے زیادہ ہے، لہٰذا جو مدت اس نے بتائی ہے وہی صحیح ہے، تمھاری بات کا اعتبار نہیں۔ 2۔ لَهٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ ....: یہ اللہ کے ’’ اَعْلَمُ ‘‘ ہونے کی دلیل ہے کہ آسمانوں کا اور زمین کا غیب صرف اس کے پاس ہے۔ رہا دیکھنے اور سننے کے ذریعے سے علم تو وہ کس قدر دیکھنے والا اور کس قدر سننے والا ہے، اس پر تعجب تو ہو سکتا ہے، بیان میں نہیں آ سکتا۔ تو پھر اس کی بات درست ہے یا ان کی جو ان صفات سے خالی ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے میں کسی کو بھی شریک نہیں کرتا۔